کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 7
چونکہ اصل مقصد تقویٰ اور تزکیہٴ روح ہے، نہ کہ تعذیب ِجسم جیسا کہ دوسرے مذاہب میں خیال کیا جاتا ہے، اس لئے تقلیل غذا اور لذائذ ِشہوانیہ کی ایسی صورت قائم کردی جو سوائے معذور انسانوں کے باقی سب کے لئے قابل عمل اور آسان ہو۔ کیونکہ تقلیل عذا کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں : ایک تو یہ کہ مقدارِ غذا کم کردی جائے اور دوسرا یہ کہ خوراک کے مختلف اوقات میں معتاد وقفہ سے زیادہ وقفہ کردیا جائے۔ اسلام نے اور دوسرے مذاہب نے بھی تقلیل غذا کی دوسری صورت کو تجویز کیا ہے۔ اس لئے کہ پہلی صورت یعنی مقدارِ غذا کو کم کردینا اگر روزہ قرار دیا جاتا تواوّل یہ کسی قاعدہ اور ضابطہ کے ماتحت نہ ہوتا کیونکہ اگر کم وزن مقرر کردیا جاتا تو یہ اختلافِ ملک، اختلافِ آب و ہوا، اختلافِ مزاج اور ا ختلاف ِقویٰ کی بنا پر کسی حالت میں درست نہ ہوتا اور اگر ہرایک شخص کے لئے انفرادی طور پر حکم ہوتا کہ اپنی معتاد غذا کا نصف کھاؤ یا اس سے کم و بیش تو یہ بھی ایک ناقابل عمل چیز تھی، کیونکہ ہر ایک انسان کی اگرچہ ایک معتاد غذا ضرور ہے لیکن پھر بھی ہر شخص کو اپنی معتاد غذا کا ٹھیک نصف یا تہائی کرنا اور ایک لقمہ بھی کم و بیش نہ ہونے دینا قریباً ناممکن ہے، اور ثانیاً اس سے قانون اور ضابطہ کی وہ عمومیت جو اس کی سب سے بڑی صفت ہے، جاتی رہتی لہٰذا تقلیل غذا کی دوسری صورت اختیار کی، یعنی خوراک کے اوقات میں معتاد اوقات سے زیادہ فاصلہ جس سے بھوک اور پیاس محسوس ہو اور قوائے بہمییہ کی پامالی ہو اور روح کو طہارت اور پاکیزگی حاصل ہو۔ اسلام نے اس بھوک، پیاس اور ترکِ لذائذ ِشہوانیہ کو اس قدر سخت اور ناقابل عمل نہیں بنایا کہ یہ مقصود بالذات ہوجائے اور جو اصل مقصد ہے، وہ فوت ہوجائے۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ اسلامی عبادت وریاضت کا دوسرے مذاہب سے مقابلہ کرکے دکھایا جائے تاکہ معلوم ہو کہ ارشادِ خداوندی ﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾کس قدر اپنے اندر ناقابل تردید صداقت رکھتا ہے۔ دوسرے مذاہب نے تکلیف و تعذیب ِجسمانی کو بھی ایک قسم کی عبادت بلکہ بہترین اقسامِ عبادت میں سے قرار دیا ہے۔ اور اسی تخیل کا یہ اثر ہے کہ یہودیوں کے ہاں قربانی اس قدر طویل و کثیر رسوم پر مشتمل تھی جس کی صرف شرائط اور لوازمات کا بیان تورات کے چار پانچ صفحوں میں مذکور ہے۔ افطارکے وقت صرف ایک دفعہ کھا سکتے تھے، اس کے بعد دوسرے روز کے وقت ِافطار تک کچھ نہیں کھا سکتے تھے(یعنی مستقل سحری کھانے کی اجازت نہ تھی)۔ اور اگر بغیر کھائے ہوئے بدقسمتی سے نیند آگئی تو پھر کھانا مطلق حرام تھا۔ ایامِ صیام کی پوری مدت میں بیویوں کی مقاربت بھی حرام تھی۔ عیسائی راہبوں نے رہبانیت کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے شرعی بیاہ کو بھی اپنے اوپر حرام کردیا، اور