کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 69
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ان انسانی حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں جوفقہاءِ اسلام نے شریعت ِمحمدی کی روشنی میں ’غلاموں ‘ کے بارے میں مدوّن کئے ہیں :
اسلام وہ مذہب ہے جس نے کسی بھی شخص کو محض نسل، وطن، رنگ، زبان اور دین و مذہب کی بنیاد پر غلام بنانا حرام قرار دیا ہے۔جب مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک قبطی کو بلا وجہ مارا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے برسرعام اس کو سزا دی اور ساتھ ہی گورنر کو قہرآلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا:
”متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا“[1]
”تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنانا شروع کیا ہے، جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا“
اسی طرح صحیح بخاری میں ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ثلاثة أنا خصمهم يوم القيٰمة وذکرمنهم ورجل باع حرّا فأکل ثمنه“
”روزِ قیامت تین شخص ایسے ہوں گے کہ میں ان کے خلاف وکیل بن کر اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گا، ایک ان میں سے وہ شخص ہوگا جس نے کسی آزاد آدمی کو فروخت کرکے اس کی قیمت کھائی ہوگی۔“
۲۔ اسلام غلامی کا سبب صرف کفر کو قرار دیتا ہے کیونکہ جو شخص اللہ کے احکام او رپیغمبر کے فرمان کو تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے، وہ خواہ شکل و صورت کے لحاظ سے پوری کائنات سے حسین کیوں نہ ہو اور حسب و نسب ، جاہ وجلال او رمقام و مرتبہ کے اعتبار سے لوگوں سے معززکیوں نہ ہو،لیکن درحقیقت ایسا شخص انسان کہلوانے کا بھی روادار نہیں ہے کہ اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے بلکہ وہ عظمت ِآدم اور شرفِ انسانیت کی سطح سے گر کر ڈھور ڈنگروں بلکہ ان سے بھی حقیر ترین مخلوق کا فرد بن چکا ہے ۔ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿أوْلٰئِکَ کَالأنْعَامِ بَلْ هُمْ أضَلّ﴾
”یہ لوگ ڈنگر ہیں بلکہ ڈنگروں سے بھی زیادہ بدتر۔“
[1] یہ وہ فصیح و بلیغ جملہ تھا جو آج سے چودہ سو سال قبل امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے ادا ہوا تھا۔ لیکن افسوس کہ آج ہم نے اپنے مزاج و نفسیات پر مغرب کو مکمل طورپر سوار کرلیا ہے۔ ہمارا جدت پسند طبقہ ان کے فیشن کی نقالی اور خیالات کی جگالی میں فخر محسوس کرتا نظر آتا ہے۔ حدیہ کہ محاورات اور اصلاحات تک کے لئے ہم مغرب کے کاسہ لیس بن گئے ہیں۔اس کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور فرانسیسی مفکر روسو نے اپنی کتاب سوشل کنٹریکٹ میں ایک جملہ لکھا تھا کہ’’ انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن وہ ہرجگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ‘‘
بس پھر کیا تھا کہ ہمارے روشن خیال اور جدت پسند طبقہ نے اسے الہامی کلام سمجھ لیا ۔ ۔ ہم نے اسے اپنی تحریروں کا عنوان بنایا۔ تقریروں کا موضوع بنایا اور کئی تنظیموں نے اسے اپنا ماٹو قرار دیا۔ہمارے روشن خیال مفکرین کی ذہنی مرعوبیت کی انتہا دیکھئے کہ یہ جملہ ۱۷۵۰ میں روسو کی قلم سے نکلا تھا لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ روسو کی یہ بات نرالی اور انوکھی نہیں بلکہ اسلام ہی کا چربہ ہے اس لئے کہ اس سے کہیں زیادہ فصیح و بلیغ اور پراثر جملہ روسو سے تقریبا گیارہ سو سال قبل ۶۱۴ء کے لگ بھگ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زبانِ مبارک سے آشنا ہوچکا ہے۔ (مترجم)