کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 67
کے رنگ میں رنگا ہوا اورکاغذ کا وہ ٹکڑا ہے جسے کارگاہِ عمل میں پورا کرنا کسی طور ممکن نہیں ۔اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ مغرب نے انسانی حقوق کے حوالے سے جتنابھی سفر کیا ہے، وہ اس لئے رائیگاں جارہا ہے کہ اس نے انسان کے حقوق واضح تو کردیئے لیکن ان کے پاس وہ قوتِ نافذہ نہیں ہے جس کے ذریعے ان حقوق کو کارگاہِ عمل میں لایا جاسکے۔[1] اور یہ واقعہ ہے کہ مغرب کی پوری سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان انسانی حقوق کو نافذ کرنا تو دور کی بات، مغرب نے کبھی بھی ان مصالح اقدار و روایات اور حدود و قیود کی پابندی نہیں کی جو انسانی حقوق کے نفاذ میں ممدومعاون ہوسکتے تھے۔ اس لئے مغرب نے انسانی حقوق کے حوالہ سے جتنا بھی سفر کیا ہے، وہ سب رائیگاں ہے۔ مغربی حلقوں کی طرف سے مذہبی فسادات کے خطرہ کو پس پشت رکھ کر سلمان رشدی کی کتاب وسیع پیمانہ پر شائع کرکے جو مسلمانوں کے جذبات کوجو ٹھیس پہنچائی گئی، آخر یہ کیا ہے؟ فلسطین اور کشمیر میں استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا یہ سب کچھ کیا ہے؟ تمہیں علم ہوگاکہ جب ۱۵/ امریکی قیدیوں کو لبنان میں بند کردیا گیا تو مغربی دنیا کس طرح چیخ اٹھی تھی، کیوں ؟ اس لئے کہ ان کا تعلق گوروں کی نسل سے تھا۔ دوسری طرف اسرائیل کے عقوبت خانوں میں آج بھی ۱۰ ہزار سے زائد فلسطینی سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں ،لیکن خود سری میں مبتلا مغرب اور امن کا نام نہاد محافظ ’امریکہ‘ خاموشی سے یہ سارا تماشا
[1] لہٰذا مشہور ماہر قانون سرہرش لیٹر پاش Sir Hertch Laiter Pathit نے انسانی حقوق کے چارٹر پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب تک حقوقِ انسانی کو قانون بین الملک سے منسلک نہیں کیاجائے گا۔ ان کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں ۔اسی طرح انسانی حقوق کے چارٹر کے مشہور مسودّہ نگار Franklin O-Roosevelt نے یہ تسلیم کیا کہ ’’حقوق انسانی کا اعلان کوئی معاہدہ نہیں ہے ۔یہ اعلان کسی قانون کی وضاحت نہیں کرتا۔ ۴/ نومبر ۱۹۶۴ء کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے کابل میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی ۔ایجنڈا تھا: ترقی پذیر ممالک میں انسانی حقوق۔ اس کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ قرارداد منظو رکی گئی کہ انسانی حقوق کا بل ان ممالک میں مؤثر نہیں ہوسکتاجہاں معاشی وسائل بہت کم ہوں اور آبادی کا غالب حصہ قوتِ لایموت پر گزارا کررہا ہو۔( اسلامی ہیومن رائٹس کے چند روشن رُخ از ڈاکٹر غزل کاشمیری : محدث، جولائی ۹۶ء) گویا انسانی حقوق کے نام نہاد خالق خود تسلیم کررہے ہیں کہ ان پرعمل پیرائی مشروط ہے۔ اور کون نہیں جانتا کہ شرو ع دن سے ہی اقوام متحدہ پرمغربی ممالک کی اجارہ داری رہی ہے اور یہ ادارہ مکمل طور پر امریکی اور دیگر مغربی قوتوں کی لونڈی بن چکا ہے۔ انہوں نے کبھی انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کی اگر کی ہے تو اپنے مفادات اور ترجیحات کو مدنظر رکھ کر۔ امریکہ اس سلسلہ میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ ۱۹۵۳ء میں خود اس کے اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ جان فوسٹرڈلس John Foster Dulles کو کہنا پڑا : ’’آئزن ہاور کی انتظامیہ نہ تو معاہدات کی سختی سے پابندی کرتی ہے اور نہ ہی دنیا میں انسانی آزادی کوحاصل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ اور مؤثر قدم اٹھا رہی ہے۔‘‘ مترجم