کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 62
دیا۔[1] اس کے بعد یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اہل عرب نے دنیا کے لئے خیر کا کوئی کام نہیں کیا اوراسلام اور اس کوماننے والے علمی لحاظ سے تہی دست ہیں ۔مسلمانوں نے علمی میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا۔ لعنت ہو، ایسے خیانت کار دروغ گو ظالموں پر!
﴿لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلیٰ الظَّالِمِيْنَ اَلَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّهُمْ بِالآخِرَةِ کَافِرُوْنَ﴾ (الاعراف:۴۴،۴۵)
”خدا کی لعنت ہوان ظالموں پر جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں اور آخرت کے منکر ہیں ۔“
(حقوق الانسان بين تعاليم الاسلام وإعلان الأمم المتحدة از شيخ محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ یعنی انسانی حقوق اسلامی تعلیمات اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تناظرمیں ، صفحہ ۶ تا ۱۰ کا خلاصہ)
مغرب کو چاہئے کہ وہ انسانی حقوق کے چارٹر میں دوسری اقوام … خصوصاً وہ اقوام جو سیاسی، عسکری، اقتصادی اور ثقافتی بحران کا شکار ہیں … کے عقیدہ ،زبان ، تہذیب و ثقافت اوران کی فکر کے مختلف انفرادی اور اجتماعی لوازمات کی آزادی کا بنیادی حق تسلیم کرلے ۔ اس کے بعد جن مختلف میدانوں میں ترقی کی معراج پر وہ خود پہنچ چکا ہے، اسے یہ حق دوسروں کے لئے بھی تسلیم کرلینا چاہئے۔لیکن خود سر مغرب جواپنے آپ کو انسانی حقوق کا محافظ، اجارہ دار اور ٹھیکیدار سمجھتا ہے ،ان قوموں کے حقوق کے حصول کے راستے میں ا س طرح دشواریاں اور مشکلات کھڑی کررہا ہے کہ ان مجبور اقوام کے مناسب اور جائز مقاصد اور حقوق بھی ناقابل حصول ہوکے رہ گئے ہیں ۔ حتیٰ کہ یہ ممالک امریکہ اور یورپی ممالک کے یرغمال اور دست نگر بن کر رہ گئے ہیں ، ان کی قسمت کا فیصلہ ان ظالموں کے ہاتھ میں ہے اور وہ ان اقوام کو معاشی، تعلیمی، علاج معالجہ اورامن وامان کے تمام چھوٹے بڑے حقوق سے محروم کررہے ہیں ۔
[1] جب اسلامی ممالک پر سامراجی طاقتیں قابض ہوگئیں تو انہوں نے ان ملکوں پر اقتدار کے پنجوں کو مضبوط کرنے کے لئے یہ ضروری سمجھا کہ مسلمان کی تاریخ کے پیچ و خم ،ان کے افکار و احساسات کی ایک ایک خلش او ران کے سماجی رجحانات اور دینی شعور کے ایک ایک نشیب و فراز کا پتہ لگایا جائے۔ کیونکہ ان کے دل و دماغ تک پہنچے بغیر قبضہ کو برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔اس مقصد کوبروئے کار لانے کے لئے یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لانے کے بعد ان میں عربی پڑھانے کا بندوبست کیا گیا۔ اور اسلام کے علمی ذخائر کو سمیٹ سمیٹ کر لانے کے منصوبے بنائے گئے۔ آکسفورڈ کے عربی کے پروفیسر ایڈورڈ پوکاک Edward Pocack نے ’حلب‘ سے عربی مخطوطات کے بیش بہا ذخیرے حاصل کئے اور عربی تصانیف کے خلاصے کرنے شروع کردیئے۔ نپولین نے ۱۷۹۸ء کے بعد مصر کے علمی ذخیروں کو فرانس منتقل کرنا شروع کردیا۔ انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد ہندوستان کے نادر قلمی نسخے لندن پہنچا دیئے۔ انڈونیشیا، ہندوستان، ایران، مصر، شام اور عراق کے کتنے ہی انمول موتی جن کو غیرملکوں میں دیکھ کربقول اقبال ’دل سی پارہ‘ ہوتا ہے ،یورپین کتب خانوں کی زینت بن گئے۔
(مستشرقین کے افکار و نظریات کے مختلف دور ،از پروفیسر خلیق احمد نظامی) مترجم