کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 55
مضمون نگار حضرات نے اس خلافِ واقعہ تحقیق پر اعتماد رکھتے ہوئے کچھ اور دلائل عقلیہ بھی لکھے ہیں جو بناء فاسد علی الفاسد ہونے کے علاوہ احادیث سے حددرجہ بدگمان کرنے والے ہیں ۔ لہٰذا ان کی مزعومہ درایت پر بھی نظر ڈال لینا مناسب سمجھتے ہیں اور ان کے دلائل کاذکر کرتے ہوئے ساتھ ساتھ جواب بھی لکھتے ہیں : مدعی کی پہلی دلیل اور اس پر تنقید ”حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا کی وفات سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغی تکلیفات کے علاوہ گھر کی ویرانی کی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ خانہ داری کا انتظام تتر بتر ہورہا تھا اور گھر میں بال بچوں کا سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے حالات میں ضروری تھا کہ گھر کے انتظام کے لئے ایک قابل جوان عورت ہو نہ کہ ۶برس کی بچی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح جواکثر راویوں کے نزدیک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے پہلے ہوا، اور بالفرض اگر یہی سچ ہو کہ سودہ رضی اللہ عنہا ہی کا پہلے نکاح ہوا تو وہ بے چاری بڑھیا، بھاری بھرکم تھی جس کا ہلنا جلنا بھی مشکل تھا گھر کا کام کیا کرسکتی؟“ اس کے جواب میں عرض ہے کہ بلاشبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور ابوطالب کی وفات سے آپ کی اندرونی وبیرونی مشکلات میں اضافہ ہوگیاتھا اور خانہ داری کے انتظام کے لئے ایک قابل عورت کی بروقت ضرورت بھی تھی۔ لیکن اس کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے کہ بوقت ِضرورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خانہ آباد بھی ہوگئی تھیں حالانکہ آپ خود پہلے لکھ چکے ہیں کہ ”ہجرت سے پہلے مکہ میں نکاح ہوا اور ہجرت کے دو سال بعد مدینہ میں رسول اللہ کے گھر میں آباد ہوئیں ۔ پس آپ ہی بتلائیں کہ انتظام کی ضرورت تو بروقت مکہ میں ہو اور منتظمہ دو سال کے بعد گھر میں قدم رکھے۔ وہ بھی مکہ کے بجائے مدینہ میں ۔پھر تو ویران گھر ویران ہی رہا یا آباد ہوگیا۔ اب آپ حضرات کی وہ خانہ آبادی والی مصلحت اور بال بچوں کی نگرانی کی ضرورت کہاں گئی اور بالخصوص اس صورت میں کہ آپ حضرات نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قبل گھر میں آنا ہی ممنوع قرار دے رکھا ہے جو خلاف ِتحقیق کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔ اصل یہ ہے کہ اوّلاً تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا انتظام کوئی بڑا بھاری انتظام نہیں تھا اور نہ زیادہ بال بچے۔ ایک حضرت فاطمہ کبری رضی اللہ عنہا جو بقول آپ کے ۱۵/۱۶ برس کی تھیں اور ایک آپ سے چھوٹی رضی اللہ عنہما اور بس۔ ثانیاً: جو کچھ بھی ہو انتظام کے لئے با ل بچوں کی نگرانی کے لئے سن رسیدہ تجربہ کار عورت کی ضرورت ہواکرتی ہے جس کو سب جانتے ہیں اور اس کے لئے حضرت سودہ بروقت کافی ہوگئیں ۔انہیں سے پہلے نکاح بھی ہوااور یہی پہلے آباد بھی ہوئیں ۔ طبقات ابن سعد صفحہ ۳۷ میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ کے پاس حضرت عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ آئیں اور کہا کہ حضور کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی