کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 54
مذہب کی توہین نہ کریں ۔ ۳۔ اگر آپ ہماری لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کو چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار دیتے ہیں کہ اَعیان قریش کے خاندان سے بہتر سے بہتر لڑکی منتخب کرسکتے ہیں ، مگر ہمارے مذہب کی مخالفت نہ کریں ۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو آپ کو مذہب ِاسلام سے روکنے کے لئے آپ کے سامنے پیش کی گئی تھیں ۔ مگر آپ نے اس کے جواب میں جوچچا سے عرض کیا ہے، وہ تمام دنیا کے لئے مقامِ فکر ہے ، فرمایا: ” اے چچا ! اگر میری قوم میرے ایک ہاتھ پرآفتاب اور دوسرے پر ماہتاب رکھ دے تو پھر بھی میں اَحکامِ الٰہی کی تبلیغ سے باز نہیں آسکتا۔“ آپ کی اس ثبات قدمی اور اولوالعزمی کے صلہ میں خدا نے دولت ِحکومت کے ساتھ عرب کے بہترین سردار کی قابل ترین لڑکی کو بھی آ پ کے عقد میں عطا فرمایا جس سے درج ذیل مصالح کی تکمیل باحسن وجوہ عمل میں آئی: (۱) مسلم خواتین کی اہم اور ضروری مصلحتیں آپ کے ذریعہ انجام پذیر ہوئیں ۔ (۲) آپ نے صنف ِنازک میں اس امر کا حوصلہ بتلایا کہ ایک لڑکی عقل و شعور سے کام لے اور محنت کرے تو علم وفضل میں نمایاں مرتبہ پاسکتی ہے۔ (۳) نبی جس طرح اُخروی نعمتوں سے سرفراز ہوگا، دنیا بھی اس کی خواہش اورارادہ سے زیادہ، اس کی خدمت کے لئے موجود تھی۔ (۴) آپ کی عزت و شرافت کا معیار اس قدر اعلیٰ اور اہم تھا کہ عرب کا بڑے سے بڑا سردار اپنی کمسن بچی کو آپ کے عقد میں دے دینا بھی اپنے لئے باعث ِفخر سمجھتا تھا۔ (۵) دنیا سے بے رغبتی آپ کی کسی مجبوری /عاجزی پر منحصر نہ تھی بلکہ آپ کا زہد و تقدس آپکو دنیا سے دور رکھے ہوئے تھا۔ ورنہ دنیا آپ کی تمام خواہشات کے لئے آپ کے قدم مبارک پر سرنگوں تھی۔ مزيد شُبہات متفق علیہ احادیث کی تکذیب کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔ انہی پر اسلام اور قرآنی احکام کا دارومدار ہے۔ اگر ایسی ہی ’درایت‘ سے آج روایتوں کی تکذیب ہونے لگے تو کل قرآن مجید بھی اسی نام نہاد ’درایت‘ کے قربان گاہ پرچڑھ جائے گا اور ساری دنیائے اسلام میں الحاد و نیچریت کا نقارہ بجنے لگے گا اور ہمارے اسلام کے پیچھے پڑی ہوئی قوم خود ہمارے ہاتھوں کامیاب ہوجائے گی۔ ہرچند کہ اس کے بعد کچھ بھی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس کے متعلق کچھ مزیدلکھا جائے مگر چونکہ