کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 53
کے جواب میں گذارش ہے کہ ہاں ضرور مل سکتی تھی لیکن وہ فضل و کمال جو آپ کے شامل حال تھا، وہ کیونکر کسی او رمیں مل سکتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی ۸،۹ بیویاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عقد میں تھیں ۔ لیکن کوئی بیوی بھی آپ کے ہم پلہ نہیں ہوئی ۔ ہم نے جو اوپر آپ کے حالات میں ائمہ کرام کے کلمات کو پیش کیا ہے، اس سے ہر شخص آ پکی قابلیت کا بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نہ صرف اہل اسلام میں معزز و محترم تسلیم کئے جاتے تھے بلکہ کفارِ عرب نے بھی ہمیشہ آپ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا۔ چنانچہ آپ کا یہ واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ آپ اپنی قوم سے تنگ آکر جب حبشہ کی طرف اوّل اوّل ہجرت کرنا چاہی تھی اور اس قصد سے آپ مکان سے نکل چکے تھے تو راستہ میں ’ابن دغنہ‘ سردارِ قبیلہ آپ سے ملا۔ اوراسے جب یہ معلوم ہوا کہ آپ ترکِ وطن کرکے اور جگہ جانا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو راستہ سے واپس لایا اور کہا کہ آپ جیسا شخص بھی قوم سے الگ کیا جاسکتا ہے؟ مقامِ غور ہے کہ کفارِ عرب جودین اسلام کے سخت ترین دشمن اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے ایسی حالت میں ایک ایسے شخص کو جو اسلام کا سخت فدائی اور دین کا کامل جاں نثار ہے ، اس کو ان کی قوم کا سردار راستہ سے واپس بلا رہا ہے۔ کوئی شخص اس واقعہ سے بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ عرب میں آپ کس شان و شوکت اور عزت و وقار کے مالک تھے۔اس سے یہ واضح ہے کہ عرب میں آپ کی شخصیت ایک بے نظیر شخصیت تھی اور مذہب ِاسلام میں تو اہل حق کا اس امر پرکامل اتفاق ہی ہے کہ إن أفضل الناس بعد الأنبياء بالتحقيق أبوبکر الصديق ”یقینا انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔“ ایسے عظیم الشان اور معززخاندان کی لڑکی جو خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جسمانی اور روحانی محاسن سے بھی مالا مال ہو۔ کیا ایسی معزز خاتون بجز نبی کے کسی اور کے لائق ہوسکتی تھی۔ اور کیا کوئی دوسری لڑکی ا ن تبلیغی فرائض کی انجام دہی کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک نہایت اہم مصلحت یہ بھی تھی کہ دنیا آگے چل کر یہ نہ کہہ سکے کہ ایسا اولوالعزم نبی باوجود متعدد نکاح و بیاہ کے کسی باکرہ لڑکی سے ہم آغوش نہ ہوسکا۔ جیسا کہ کفارِ عرب نے آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کی معرفت آپ کو راہ حق سے روکنے کے لئے آخری تدبیر پیش کرتے ہوئے کہا : ۱۔ آپ اگر حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں ۔ مگر آپ ہمارے مذہب کی تردید سے باز آجائیں ۔ ۲۔ اگر آپ مال چاہتے ہوں تو ہم تمام قبائل آپ کے لئے اس کا انتظام کردیں گے۔ مگر آپ ہمارے