کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 52
عشرہ سنة … الخ ”میں نے اپنی قوم مہالبہ میں ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ خود اس کو ۹/ برس کی عمر میں لڑکی پیدا ہوئی او رپھر وہ لڑکی ۹/ برس میں لڑکے والی ہوگئی اور اس طرح سے ۱۸ /برس میں نانی بن گئی۔“ اصل یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کا شباب و بلوغ صرف عمر ہی پر موقوف نہیں ۔ زیادہ تر ملکی آب و ہوا اور جسمانی نشوونما کو بھی اس میں بہت کچھ دخل ہے۔ ایک ہی ملک کے قوی الاعضا اور نحیف الاعضامیں چار چار، چھ چھ برس کافرق پڑ جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات چھوٹا لڑکا یا لڑکی بلوغ کوپہنچ جاتے ہیں اور بڑے ابھی برسوں پڑے رہ جاتے ہیں ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جو ائمہ اربعہ میں جلیل القدر امام ہیں ، آپ کا چشم دید واقعہ نقل کیا جاتاہے : أنه رأی جدة بنت إحدی عشرين سنة وإنها حاضت لاستکمال تسع ووضعت بنتها لاستکمال عشر ووقع ببنتها مثل ذلک (فتح الباری: ص۲۰۳ جلد ۵) ”آپ نے دیکھا کہ ایک عورت اکیس برس کی عمر میں نانی بن گئی۔ اس کی صورت یوں ہوئی کہ نویں برس میں حیض آیا، دسویں برس میں لڑکی جنی اور اس لڑکی کا حیض و حمل بھی اسی طرح وقوع پذیر ہوا جس سے اکیس برس کی عمر میں نانی کہلانے لگی۔“ اسی طرح صحیح بخاری میں بھی حسن بن صالح کے ذریعہ ایک واقعہ مذکور ہے۔ ان کابیان ہے کہ کنت أدرکت جارة لنا جدة بنت إحدیٰ و عشرين (بخاری: جلد۱/ص۴۶۶ ) ”میں نے اپنے پڑوس کی لڑکی کو دیکھا کہ وہ اکیس برس کی عمر میں نانی ہوگئی تھی۔“ ان واقعات اورحالات کے معلوم کرلینے کے بعد غالباً اس عمر میں عورت کے بلوغ میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ ہمیں بھی تسلیم ہے کہ علی العموم اس سن میں بہت کم عورتیں بالغ پائی جاتی ہیں مگر اس سے یکدم نفی کا ثبوت کیونکر ہوسکتا ہے اور خاص کر ایسی لڑکی کی نسبت جس کی جسمانی اور روحانی نشوونما کا کمال سب پر ظاہر ہو۔ ہاں ممکن ہے کہ کسی کو اس واقعہ سے شبہ پڑے کہ آپ کی کمسنی اور جھولا وغیرہ کا ذکر آ پ کے بلوغ کو تسلیم کرنے سے مانع ہے تو اس کے جواب میں آپ کی توجہ عہد رفتہ کی طرف منعطف کرنے کا مشورہ دیں گے اور اس زمانہ کی سادگی اور معاشرتی حالات کی طرف غائر نظر ڈالنے کی رائے دیں گے، جس سے تمام شکوک رفع ہوجائیں گے۔ تیسرا سوال اور اس کا جواب اس موقع پر تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور لڑکی اس سے زیادہ سن کی آپ کو نہیں مل سکتی تھی۔ اس