کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 48
کیا گیا ہے تو ہمارے خیال میں اس سے بڑھ کر ظلم و خیانت کی شاید کوئی اور مثال نہیں ملے گی۔ اب رہا کتابت میں اس قسم کی غلطیوں کا ہوجانا یہ تو روز مرہ کی بات ہے۔ اہل نظر کے لئے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، اکائی دہائی کی آئے دن غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ مگر قرائن بھی تو کوئی چیز ہیں خصوصاً اس حالت میں کہ اسی واقعہ کو دوسری جگہ بالکل صاف اور واضح کردیا گیا ہو اور جملہ دوادین و کتب بھی اس کی تصدیق کرتی ہوں ۔
اس موقع پر ہمیں اپنے ان محترم معاصرین سے بھی شکایت ہے جنہوں نے اس صحیح مسلک کی تائید کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ امام خطیب سے اس جگہ غلطی ہوگئی ہے یا یہ کہا گیا کہ یہ رسالہ کوئی ایسا اہم رسالہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک کسی کی غلطی یقینی طور پر معلوم نہ ہو، تب تک اس قسم کا لفظ بولنا بالکل غیر موزوں ہے بالخصوص امام خطیب جیسے بلند پایہ شخص کی طرف جو اس میدان کا اعلیٰ شہسوار ہے۔
حضرت عائشہ کے نکاح پر عقلی اعتراضات
اہل اسلام میں جب تک وسعت ِعلم اور دقت ِنظر کا عنصرغالب رہا، کسی فرد نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس عمر میں شادی کو غیر معقول خیال نہیں کیا۔ مگر آج جبکہ ہر طرف کفر والحاد کا غلبہ ہے اور تجددو نیچریت کا دور دورہ ہے، اس نکاح پر عقلی اعتراضات وارد کئے جارہے ہیں ۔ اس موقع پر جو سوالات آج کل عموماً اٹھائے جاتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی کمسن لڑکی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
۲۔ آیا اس عمر کی لڑکی دلہن بننے اور ازدواجی ضرورت کے رفع کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں ؟
۳۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے زیادہ عمر کی لڑکی نہیں مل سکتی تھی کہ اس کمسن بچی کے ساتھ عقد کیا؟
یہی وہ شکوک و اوہام ہیں جو بطریق سوال پیش کئے جارہے ہیں ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اس موقعہ پر ان کا جواب بھی دے دیا جائے۔
پہلا سوال اور اس کا جواب
یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام دنیا کے واسطے تھی اور ہے۔ اور دین اسلام کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں ہونے والی تھی اور ہوئی۔ ایسی صورت میں یہ ضروری تھا کہ طبقہ اناث کو احکام ومسائل بتلانے کے لئے آپ کے عقد میں جہاں کئی ایک عمر رسیدہ خواتین ہوں ، وہاں ایک کمسن خاتون بھی ضرور ہونی چاہئے تاکہ وہ کمسن اور کنواری بچیاں جو فرطِ حیا سے ماں برابر جیسی عورتوں سے اپنے مخصوص مسائل پوچھنے میں حیا محسوس کریں ،وہ خاص آپ سے مل کر اپنے حالات کا اظہار کرکے اپنی تشفی کرسکیں ۔ اور اس