کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 47
برس کم رہ گئیں ۔ اور یہاں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ایک ہجری میں ۲۷ برس کی تھیں ۔ کیونکہ ۷۳ ہجری میں آ پ کی عمر سو برس کی ٹھہری تو ایک ہجری میں ۲۷ برس یقینی امر ہے۔ اسی غلطی پر بنیاد بناتے ہوئے جب حضرت عائشہ کی عمر ایک ہجری میں نکالی جائے تو دس برس چھوٹی ہونے کی وجہ سے ۱۷ برس بنتی ہے ۔اگر عمر کا فرق ۲۰ برس کا ہو تو ایک ہجری میں حضرت عائشہ کی عمر ۷ برس بنی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے واقعہ نگار کو غلطی لگی۔ لیکن ہمارے عجلت پسند بزرگ اسی رسالہ کا وہ مقام دیکھ لیتے جو خاص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ترجمہ کے ساتھ مخصوص ہے تو ہرگز اس فاش غلطی کا ارتکاب نہ کرتے۔چنانچہ یہی امام خطیب اسی رسالہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ عائشة الصديقة أم الموٴمنين: عائشة بنت أبی بکر الصديق خطبها النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وتزوجها بمکة في شوال سنة عشر من النبوة قبل الهجرة بثلاث سنين وأعرس بها بالمدينة فی شوال سنة اثنتين من الجهرة علی رأس ثماني عشر شهراً ولها تسع سنين وقيل دخل بها بالمدينة بعد سبعة أشهر من مقدمه وبقيت معه تسع سنين ومات عنها ولها ثماني عشرة سنة (الاکمال :ص۲۸) ”عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ اُمّ المومنین: یہ عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی لڑکی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا اور آپ سے مکہ میں شوال کے مہینہ میں نکاح کیا۔ (یہ واقعہ) ۱۰/ نبوت میں ہوا یعنی ہجرت سے تین برس پہلے اور آپ نے ان کو ۱۸/ مہینہ گذرنے کے بعد ۲ ہجری میں اپنی دلہن بنایا جس وقت آپ کی عمر کل ۹ برس کی تھی اور بعض کا بیان ہے کہ یہ خلوت مدینہ میں تشریف آوری کے صرف سات ماہ بعد واقع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا قیام بھی (مکہ کے قیام کی طرح) صرف ۹ ہی برس رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی کل عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔“ اس صاف و صریح بیان کے بعد کہ ۶ برس کی عمر میں نکاح ہوا اور ۹ برس کی عمر میں رخصتی ہوئی اور ۱۸ برس کی عمر میں بیوگی کا صدمہ اٹھایا، کیا کوئی منصف اور عقل مند شخص اس کے بعد اس امر کے یقین کرنے میں تامل کرسکتا ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ترجمہ میں عشرین کی بجائے عشر کا لفظ،محض کتابت کی غلطی ہے۔ ہمیں سخت تعجب ہے کہ لائق مضمون نگار نے اس اصل مضمون سے کیونکر غفلت کی اور ایک غلط عبارت کے ذریعہ تمام دنیا کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ اگر واقعتہً یہ مقام آپ کی نظر سے نہیں گزرا تو یہ ایک اہل علم کے لئے یہ ناقابل معافیجرم ہے۔کیونکہ یہ مضمون اسی رسالہ میں ہے جس میں سے آپ مضمون لکھ رہے ہیں اوریہی مقام آپ کے ماخذ کا اصل سرچشمہ ہے۔ اور اگر دیدہ دانستہ اس بددیانتی کا ارتکاب