کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 45
نے آپ کے سپرد کردیا۔ اور اس وقت میری عمر کل ۹ برس کی تھی۔“ ابوداود، نسائی، صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی یہ متفقہ روایت ہے اور لطف یہ ہے کہ اس واقعہ کی راوی بھی خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں اور آپ خود اپنا واقعہ اپنی زبان سے فرما رہی ہیں ۔ اور نہایت صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہیں کہ مکہ مکرمہ میں چھ برس کی عمر میں میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا۔ اور مدینہ منورہ میں ۹ برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔ کیا ایسی پختہ اور معتبر روایت مل جانے کے بعد بھی کسی اور طرف نظر کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ کیونکہ یہ حدیث نہ صرف سنن کی ہے بلکہ صحیحین کی بھی ہے جس میں صحیح بخاری بھی شامل ہے۔ اور صحیح بخاری کی صحت اور اعتبار کا جو درجہ اسلام میں تسلیم کیا گیاہے کسی سے مخفی نہیں کہ”روئے زمین پر قرآن شریف کے بعد سب سے زیادہ معتبر کتاب صحیح بخاری ہے۔“ تمام فقہاءِ امت بھی نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی عمر کے قائل ہیں ۔ اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کتنے مسائل کی کتب ِفقہ میں ’تفریع‘ کی گئی ہے۔ کتاب الاستیعاب فی معرفة الأصحاب جو صحابہ کے حالات میں نہایت جامع، مبسوط اور معتبر کتاب ہے، اس میں بھی آپ کی عمر یہی مذکور ہے ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں اس کتاب کی عبارت یہ ہے : عائشة بنت أبی بکر الصديق رضی اللّٰه عنہ زوج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم تزوجها رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بمکة قبل الهجرة بسنتين هذا قول أبی عبيدة وقال غيره بثلاث سنين وهي بنت ست سنين وقيل سبع سنين وابتنی بها بالمدينة وهي ابنة تسع لاأعلمهم اختلفوا فی ذلک (استيعاب ص۳۵۶ علی هامش الإصابة) ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : (آپ رضی اللہ عنہ ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں ۔ آپ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں ہواتھا۔ ابوعبیدہ کا بیان ہے کہ ہجرت کے دو سال قبل یہ نکاح ہوا تھا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ تین سال قبل ہوا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر چھ برس کی تھی اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سات برس کی تھی۔ اور جس وقت آپ کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رخصتی ہوئی ہے، اس وقت آپ کی عمر کل نو برس کی تھی۔ مجھے اس بارے میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں ۔“ یعنی آپ کے نکاح کی عمر میں تو ذرا سا اختلاف ہے کہ کسی نے چھ، کسی نے سات برس کی عمر بتلائی ہے مگر رخصتی کی عمر سب کے نزدیک ۹ برس مسلم ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اب رہا یہ چھ سات کا اختلاف تو اہل نظر کے نزدیک کچھ اہم نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’اصابہ‘ میں لکھتے ہیں : عائشة رضی اللّٰه عنہا بنت أبی بکر الصديق رضی اللّٰه عنہ ولدت بعد المبعث بأربع سنين أو خمس فقد ثبت فی الصحيح أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم تزوجها وهي بنت ست وقيل سبع و يجمع بأنها کانت أکملت السادسة ودخلت فی السابعة ودخل بها وهي بنت تسع (۴/۳۵۶)