کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 44
گویا آج تک کے تمام علماءِ اسلام ،کیا فقیہ ،کیا محدث ،کیا مفسر اورکیا موٴرخ سب کے سب اس واقعہ کے متعلق دس برس کی نہایت زبردست اور فاش غلطی کے جرم کا ارتکاب کرتے آئے۔( معاذ اللہ) کیونکہ سلف سے خلف تک کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ امّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت نکاح ۱۶/ برس اور بوقت ِرخصتی ۱۹/ برس کی تھی۔ بلکہ سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ جناب عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ یا سات برس کی عمر میں ہوا تھا اور آپ کی رخصتی ۹ برس کی عمر میں عمل میں آئی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تاریخ اَزدواج کے متعلق کتب ِاسلامیہ کا متفقہ بیان چونکہ آپ کے واقعہ نکاح کو مذہب، اَخلاق، معاشرت ہرایک سے یکساں تعلق تھا، اس لئے علماءِ حدیث، فقہ، اوراصحابِ سیرت ہر ایک نے آپ کے واقعہ نکاح کو لیا ہے اور سب نے یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت ِنکاح چھ یا سات برس کی تھی اور بوقت ِرخصتی ۹ برس ۔ چنانچہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، ابوداود اور نسائی ان چاروں کتابوں کی متفقہ روایت یہ ہے : عن عائشة قالت تزوجنی رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم وأنا بنت ست سنين فقدمنا المدينة فنزلنا فی بني الحارث بن خزرج فوعکت فتمزق شعري فوفی جميمة فاتتنی أمی أمّ رومان وإنی لفی أرجوحة ومعی صواحب لی فصرختْ بی فأتيتها لا أدری ما تريد بی فأخذت بيدي حتی أوقفتنی علی باب الدار وإنی لأنهج حتی سکن نفسی ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت وجهي ورأسی ثم أدخلتنی الدار فاذا نسوة من الأنصار في البيت فقلن علی الخير والبرکة وعلی خير طائر فأسلمتنی إليهن فأصلحن من شأنی فلم يرعنی إلارسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم ضحی فأسلمننی إليه وأنا يومئذ بنت تسع سنين (صحیح بخاری : حدیث نمبر ۳۸۹۴) ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا، اس وقت میری عمر چھ برس کی تھی۔ اس کے بعد ہم لوگ (ہجرت کرکے) مدینہ گئے اور وہاں قبیلہ بنی حارث میں قیام ہوا۔ ا س کے بعد مجھے ایسا بخار آیا کہ سر کے تمام بال جھڑ گئے، پھر (از سر نو نکل کر) کندھوں تک ابھی پہنچے تھے کہ میری ماں (اُمّ رومان) میرے پاس آئیں اور میں اس وقت لڑکیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی۔ میں ماں کے پاس چلی گئی۔ مجھے کچھ خبر نہیں کہ آج کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر دروازہ پر (تھوڑی دیر) رکے رہیں ۔ میری سانس (کھیل کی وجہ سے) چڑھ رہی تھی۔ جب سکون ہوا تو ماں نے پانی لے کر میرا منہ اور سر دھویا۔ پھر مکان میں لے کر گئیں۔( گھر میں پہنچ کر دیکھتی ہوں کہ )اَنصار کی عورتیں وہاں موجود ہیں ، وہ مجھے دعاءِ خیر اور مبارک باد دینے لگیں ۔ ماں نے مجھے ان عورتوں کے حوالہ کیا، انہوں نے میرا بناؤ سنگھار کیا۔ اب تک مجھے کچھ خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا۔ اور پھر مجھے ان عورتوں