کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 40
نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روضہ میں اس تعریف کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔
بُعد کی تعریف میں دوسرا قول یہ ہے کہ مسافت ِقصر تک جتنے بلاد ہیں وہ ایک دوسرے کے قریب ہیں اور جو اس حد مسافت سے باہر ہیں ، ان پر بُعد کا اطلاق ہوتا ہے ۔یعنی وہ ایک دوسرے سے دورشمار ہوں گے، یہ قول امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ رافعی رحمۃ اللہ علیہ نے صغیر میں اس کو صحیح کہا ہے۔ (تحفة الاحوذی: ج۲ ص۳۶)
خلاصہ
تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے :
۱۔ چاند کا چھوٹا بڑا ہونا لوگوں کے لئے اوقات اور حج کا وقت معلوم کرنے کی علامت ہے۔
۲۔ رمضان کی ابتدا اور اس کی انتہا روٴیت ِہلال یا شہادت پر مبنی ہے۔
۳۔ مطالع کا اختلاف ایک بدیہی اور فطری امر ہے۔
۴۔ ہلالِ رمضان کے لئے ایک مسلمان کی شہادت اور ہلالِ شوال (عید) کے لئے کم ا زکم دو مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے۔
۵۔ رمضان کی خاطر ہلالِ شعبان کا تحفظ ایک ضروری امر ہے۔
۶۔ ریڈیو، ٹیلیفون، تار اورخبررسانی کے دیگر ذرائع سے ملنے والی خبر قابل اعتبار ہے۔ بشرطیکہ یہ معلوم ہو کہ خبردہندہ مسلمان ہے …اور تار کے ذریعہ پہنچنے والی خبر حد ِتواتر کو پہنچ چکی ہے۔
۷۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف روٴیت ِہلال کے بارے میں یہ ہے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے معتبر ہے۔
مسافت ِقصر اور ممالک کے مختلف ہونے کی قید ان کے نزدیک عقلاً و شرعاً درست نہیں ۔
۸۔ ہمارے نزدیک علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام کا نظریہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے معتبر ہے۔ اوران پر روزہ لازم ہوجاتاہے جب کہ ہر دو بلاد کا مطلع ایک ہو یا اتنا فرق ہو کہ اگر ایک بلد میں چاند طلوع ہوا ہے تو دوسرے بلد میں بھی اس کا طلوع ممکن ہو۔
اگر ہر دو بلد کے مطالع میں اتنا فرق ہے کہ جب دونوں میں سے ایک بلد میں چاند طلوع ہو اور دوسرے میں طلوع نہ ہو بلکہ اس فرق سے تاریخ بدل جائے تو ایسے ہر دو بلاد میں سے ایک بلد میں دیکھا ہوا چاند دوسرے بلد کے لئے قطعاً کافی نہیں ہوگا۔ روزہ اور عید ادا کرنے میں وہ ایک دوسرے کے پابند نہیں ہوں گے۔ مغنی ابن قدامہ سے بھی ہمارے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے :