کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 4
اس موقع کی ہر حرکت کو ہمیشہ کے لئے قائم کردیا اور اس کو ہمیشہ دنیا میں زندہ رکھنے کے لئے اس موقع کی ہرہر ادا کو پیروانِ دین حنیفی پر فرض کردیا گیا، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال جب حج کا موسم آتا ہے تو لاکھوں انسانوں کے عمل سے اُسوہ ٴ ابراہیمی جلوہ نما ہوتا ہے، اور ان میں سے ہر متنفس وہ سب کچھ کرتا ہے جو آج سے کئی ہزار برس پہلے خدا کے دو مخلص بندوں نے وہاں کیا تھا۔ یہی وہ دائمی بقا ہے جس کا ذکر یوں ہے: ﴿وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا﴾ (البقرة: ۱۲۹) ”ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو اپنی رحمت سے بہت بڑا حصہ دیا اور ان کے لئے اعلیٰ واشرف ذکر ِخیر دنیا میں باقی رکھا۔“ اُسوہٴ محمدی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حضور یہ دعا و التجا کی تھی کہ ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلاً مَّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيَاتِکَ وَيُعَلَّمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَيُزَکِّيْهِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَکِيْمُ﴾ (البقرة: ۱۲۹) ”اے پروردگار! میری اولاد میں سے ایک ایسا رسول بھیج جو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے، کتاب وسنت کی تعلیم دے اور تمام ناپاک عقائد سے ان کو پاک کردے۔“ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اس معلم کتاب و سنت کو مبعوث فرمایا اور دنیا کے سامنے ’اُسوۂ محمدی‘ کو پیش کیا۔ اس اُسوہٴ عظیمہ کا سب سے پہلا منظر عالم ملکوتی میں وہ استغراقِ تام تھا، جبکہ صاحب ِسنت یا صاحب ِاُسوہ انسانوں کو ترک کرکے خدا کی صحبت اختیار کئے ہوئے تھا اور انسانوں کے بنائے ہوئے گھروں کو چھوڑ کر غارِ حرا کے تیرہ و تاریک حجرے میں گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ وہ اس عالم میں کئی کئی راتیں جمالِ الٰہی کے بے کیف نظارے میں بسر کرتا رہتا تھا تاآنکہ اس تنگ و تاریک غار کے اندر قرآن کانورطلوع ہوا، اور خدا کو اپنے پیارے بندے کی ا س ماہ میں مخلصانہ عبادت، گوشہ نشینی، بھوک پیاس اور راتوں کو جاگنا کچھ ایسا پسند آیا کہ دنیا میں اُسوہ حسنہ کے طور پر اس کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ پس جس طرح خدا تعالیٰ نے دین حنیفی کے داعی ٴاوّل کے اُسوۂ حیات کو دوامیت بخشی، اسی طرح دین حنیفی کے آخری مکمل اور مُتمَّم وجود کے اُسوہ حسنہ کو بھی ہمیشہ کے لئے قائم کردیا۔ آپ راتوں کو بارگاہِ الٰہی میں مشغولِ عبادت رہتے تھے، پس پیروانِ اُسوۂ حسنہ اور متبعین سنت ِمحمدیہ بھی رمضان المبارک کی راتوں میں قیامِ لیل کرنے لگے اور تلاوت و سماعت ِقرآنِ مجید سے وہ تمام برکتیں ڈھونڈنے لگے جو اس ماہِ مبارک کو قرآنِ حکیم کے نزول سے حاصل ہوئیں ۔ آپ اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک تنہا گوشہ میں خلوت نشین ہوتے تھے۔ پس ہزاروں موٴمنین قانتین اس ماہِ مقدس میں اعتکاف کے