کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 36
شہروں کے درمیان اتنی مسافت ہو جس قدر مدینہ اورشام کے درمیان ہے تو ان میں سے ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہر کے لئے کافی نہیں ۔ اگر اس سے کم مسافت ہو تو اس حدیث کی رو سے ایسے شہروں میں ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہروں کے لئے کافی ہونے میں ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ۔ پھر اس معنی کی بنا صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اجتہاد پر ہے اور یہ معنی اسی وقت قابل اعتماد ہوسکتا ہے جب اجتہاد کو حجت تسلیم کرلیا جائے اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اُمتی کا اجتہاد حجت نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ جہاں اس میں صواب کا امکان ہے، وہاں خطا کا بھی احتمال ہے۔
حدیث ِکریب اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ : امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ان تمام اقوال کا ذکرکرکے لکھتے ہیں کہ ان لوگوں کی دلیل کریب کی مذکورہ بالاحدیث ہے جس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اہل شام کی روٴیت پرعمل نہیں کیا اور انہوں نے فرمایا: ھکذا أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رسالت ِمآب نے ہم کو اسی طرح حکم دیا ہے۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ ایک علاقہ کے لوگوں کے لئے دوسرے علاقہ کی رؤیت پر عمل کرنا ضروری نہیں ۔
لیکن امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ تبصرہ فرماتے ہیں کہ کریب کی حدیث جس سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے معتبر نہیں ، دراصل ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا اجتہاد ہے جسے حجت قرار نہیں دیاسکتا۔ حجت تو مرفوع حدیث ہوتی ہے اور ابن عباس نے جو یہ کہا ہے کہ ھکذا أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تو اس ھکذا کا مشارالیہ ان کا وہ قول ہے جس میں انہوں نے بیان کیا: فلانزال نصوم حتی نکمل ثلاثين”ہم روزے رکھتے ہی رہیں گے حتیٰ کہ تیس پورے کریں۔‘‘ اورابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول دراصل رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ا س حکم کی روشنی میں ہے جس کو بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ سے روایت کیا ہے
لاتصوموا حتی تروا لهلال ولا تفطروه حتی تروه فإن غم عليکم فأکملوا العدة ثلاثين
یعنی”چاند دیکھے بغیر نہ روزے رکھو او رنہ دیکھے بغیر افطار کرو۔ اگر بادل یاغبار کی وجہ سے چاندپوشیدہ ہو تو پھر تیس روزے پورے کرو“
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم کسی ایک علاقہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ اس حکم کا مخاطب ہر وہ مسلمان ہے جو اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے حدیث سے یہ استدلال کرنا زیادہ واضح ہے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل بلد کے لئے معتبر ہے۔ بہ نسبت اس استدلال کے کہ ایک اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل بلد کے لئے قابل قبول نہیں ۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ جب کسی علاقہ کے لوگوں نے چاند دیکھا ہے تو گویا مسلمانوں نے چاند دیکھا ہے چنانچہ جو بات چاند دیکھنے والے مسلمانوں پر لازم آتی ہے، وہی دوسرے مسلمانوں پر لازم آتی ہے۔