کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 35
حکم دیا ہے۔“ علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے هذا بظاهره يدل علی أن لکل بلد روٴيتهم ولا تکفی روية أهل بلد لأهل بلد اٰخر (تحفة الاحوذی: ج۲، ص۳۵) ”یہ حدیث بظاہر دلالت کرتی ہے کہ ہرعلاقہکے لئے ان کے باشندگان کی روایت ہے، اہل بلد کی روٴیت دوسرے اہل علاقہ کے لئے کفایت نہیں کرتی۔“ بعض ائمہ نے کریب کی اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ روٴیت کے بارے میں ایک شہادت معتبر نہیں ، اسی لئے توابن عباس رضی اللہ عنہما نے کریب رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت پرعمل نہیں کیا مگر ان کا یہ استدلال اس لئے درست نہیں کہ حدیث سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ روٴیت کا حکم بعید کے حق میں ثابت نہیں ہوتا۔ اس بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کریب کی شہادت کو قبول نہیں کیا۔ حدیث ِکریب اور مختلف مذاہب :ایک شہر کی روٴیت دوسرے شہر کے لئے معتبر نہیں (نووی) اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس میں علماء کے مختلف مذاہب ہیں ۱۔ ہربلد کی روٴیت انہی کے لئے ہے جووہاں کے باشندے ہیں ، دوسرے بلد کے لئے نہیں ہے۔ ۲۔ جب ایک بلد میں چاند نظر آجائے تو اس کی روٴیت تمام بلاد کے لئے لازم ہوتی ہے۔ مالکیہ کے نزدیک یہ مشہور مذہب ہے۔ ۳۔ ملک مختلف ہیں تو ایک ملک کی روٴیت دوسرے ملک کے لئے کافی نہیں ۔ ۴۔ جن شہروں میں چاند کے طلوع ہونے کا امکان ہے، صرف بادل یا غبار چاند کے خفا کا باعث ہے، ایسے تمام شہروں میں سے ایک شہر میں دیکھا ہوا چاند سب شہروں میں معتبر ہے، ان کے علاوہ دیگر شہروں میں طلوعِ چاند کا حکم نافذ نہیں ہوگا، یہ قول سرخسی کا ہے۔ ۵۔ ابن ماجشون کا قول ہے کہ اہل بلد کی روٴیت دوسرے بلد کے لئے کفایت نہیں کرتی۔ البتہ اگر وقت کا حاکم کسی ثبوت کی بنا پر روٴیت ِہلال کا اعلان کردے، اس لئے کہ اس کے حق میں جملہ بلاد ایک ہی بلد کے حکم میں ہیں ، اور اس لئے بھی کہ ا س کا حکم تمام ملک میں نافذ ہے تو ایسی روٴیت جملہ بلاد پرموٴثر ہوگی۔ ۶۔ اگر علاقہ کی ایک جہت پہاڑی ہے۔ دوسری میدانی تو اس صورت میں ایک جہت کی روٴیت دوسری جہت کے لئے کافی نہیں ۔ تبصرہ:کریب کی اس حدیث سے یہ استدلال کرنا درست نہیں کہ ایک شہر کی روٴیت اسی شہر کے باشندگان کے لئے ہے، دوسرے شہروں کے لئے نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن