کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 34
حسب ِذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے :
۱۔ ملک ایک ہے، ا س کے کسی ایک شہر میں دیکھا ہوا چاند تمام ملک کے لئے کافی ہے۔
۲۔ ایک ملک کی روٴیت دوسرے ملک کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
۳۔ مطالع کا اختلاف، روٴیت اور عدم روٴیت میں کس حد تک موٴثر ہے۔
پہلی صورت
پہلی صورت میں عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ، قاسم رحمۃ اللہ علیہ ، سالم رحمۃ اللہ علیہ ، اسحق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ملک کے ایک شہر میں دیکھا ہوا چاند اس ملک کے دوسرے شہر کے لئے کافی نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض اہل علم کا یہ مذہب نقل کیا ہے کہ إن لکل بلد روٴیتھم یعنی ہر شہر کے لئے ان کے اہالیان کی روٴیت کارآمد ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے انہی الفاظ سے باب باندھا ہے۔ ان ائمہ نے جس حدیث سے اپنے اس نظریہ کا استدلال کیا ہے وہ کریب رحمۃ اللہ علیہ تابعی سے مروی حدیث ہے جس کو بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے سوا اَئمہ کی ایک جماعت نے تخریج کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ حسب ِذیل ہیں :
عن کريب أن أم الفضل بعثته إلی معاوية بالشام فقال فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل علیّ رمضان وأنا بالشام فرأيت الهلال ليلة الجمعة ثم قدمت المدينة فی اٰخر الشهر فسألنی عبداللّٰه بن عباس ثم ذکر الهلال فقال متی رأيتم الهلال فقلت رأيناه ليلة الجمعة فقال أنت رأيته؟ فقلت نعم وراٰه الناس وصاموا وصام معاوية فقال لکنا رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتی فکمّل ثلاثين أونراه فقلت ألا تکتفی بروٴية معاوية وصيامه ؟ فقال: لا هکذا أمرنا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح سنن الترمذی : رقم ۵۵۹/نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار)
”کریب رحمۃ اللہ علیہ تابعی سے روایت ہے کہ اُمّ الفضل رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے معاویہ کی طرف ملک شام میں (کسی کام کے لئے) بھیجا، میں نے اس کام کو سرانجام دیا۔ میں ابھی شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیااور جمعہ کی رات کو میں نے خود چاند دیکھا۔ پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ واپس آیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے (وہاں کا حال) پوچھا۔ اس کے بعد انہوں نے چاند کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ہے ۔ پوچھا:کیا تو نے خود دیکھا ہے، میں نے کہا: ہاں میں نے خود دیکھا ہے اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا ہے؟ انہوں نے روزہ رکھا اور معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم نے توہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم تو روزہ رکھیں گے حتیٰ کہ تیس روزے پورے ہوجائیں یا اس سے پہلے چاند دیکھ لیں ۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ معاویہ کی رؤیت او ران کے روزوں پراکتفا نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اس طرح