کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 30
أحد حتی یراہ أویراہ غیرہ یعنی ”کوئی شخص روزہ نہ رکھے جب تک خودچاند نہ دیکھ لے یا کوئی دوسرا معتبر آدمی چاندنہ دیکھ لے۔ اگر حدیث کا یہ مفہوم ہو کہ جو شخص چاند دیکھے وہی روزہ رکھے تو نابینا یا وہ شخص جو نگاہ کی کمزوری کی بنا پر چاندنہیں دیکھ سکتا، وہ روزہ رکھنے کا مکلف نہیں ہوگا جبکہ ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْه﴾ والی آیت کا تقاضا ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ “ مختصر یہ کہ جن کو چاند نظر نہ آئے، شہادت ملنے سے روزہ اور اِفطار ان پر لازم ہوجاتا ہے۔اگر مطلع ابر آلود ہو یا غبار کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا تو پھر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کی ہدایت ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے: فأکملوا عدة شعبان ثلاثين نصابِ شہادت ہلالِ رمضان کی شہادت :جمہور ائمہ کا قول ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی شہادت پر روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ نیز ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ فأخبرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنی رأيته فصام وأمرالناس بصيامه (ابوداود) ”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو آپ نے روزہ رکھااور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“ (اس حدیث کو ابن حبان او رحاکم نے صحیح کہا ہے) (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر بیان کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تو کلمہ توحید اور رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ اس نے اعتراف کیا ،آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ وہ اعلان کرے کہ لوگ روزہ رکھیں (منتقیٰ: ج ۴/ ص۱۸۴) اس حدیث کو ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ ہر دو احادیث سے ظاہر ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ ہلالِ عید کی شہادت :ہلالِ عید کی شہادت کے لئے کم از کم دو گواہوں کی ضرورت ہے۔چنانچہ آخر رمضان میں ہلالِ عید کے متعلق جھگڑا ہوا۔ دو اعرابی آئے اورانہوں نے شہادت دی کہ بخدا ہم نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ افطار کرلیں اور صبح عید گاہ کی طرف نکلیں ۔ عید کے بارے میں کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں جس میں ایک شہادت کا ذکر ہو۔ نصاب شہادتِ رمضان کے بارے میں اعتراض :امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، لیث رحمۃ اللہ علیہ ، اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، ثوری رحمۃ اللہ علیہ او رامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی (ایک قول میں )ہے کہ ہلالِ رمضان کے لئے ایک شہادت کافی نہیں بلکہ دو کی شہادت کا اعتبار