کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 29
ناواقف اور بے علم ہے، اس کے لئے مہینہ کی تاریخ اور سال سے خود بخود باخبر ہونا ایک مشکل امر ہے، اس لئے قیاس یہ چاہتا ہے کہ ابتداے آفرینش میں لوگ چاند ہی کے مہینے جانتے تھے اور بارہ مہینوں کا سال شمار کرتے تھے۔چنانچہ تقویم تاریخی کے مصنّفین میں سے بعض نے لکھاہے : ”قمری سال حقیقی ہے یعنی چاندکے بارہ مرتبہ عروج و زوال کو ایک سال شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں موسم کا کوئی لحاظ نہیں ، کبھی یہ سال سردیوں سے شروع ہوتا ہے اورکبھی گرمیوں میں ، کبھی بہار میں اور کبھی خزاں میں ۔ چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، وہ دائرہ جس پر چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، بالکل گول نہیں ہے۔ اس لئے چاند کبھی زمین سے قریب تر ہوتا ہے اورکبھی بعید تر۔ اسی طرح چاند کی رفتار ہرجگہ برابر نہیں ہوتی، کبھی تیز ہوتی ہے کبھی سست۔ اس لئے زمین کے گرد چاند کا چکر کبھی تیس دن میں مکمل ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن میں ۔ اسی طرح چاندکے مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں اور کبھی تیس دن کے۔ زمین کے گرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت قریباً تین سو چون دن ہوتی ہے، اس لئے ہر قمری سال اتنی ہی مدت کا ہوتا ہے۔ اس میں کسی حسابی کے زحمت اُٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ کسی ایک مقام پر تیرہویں بار چاند اس سے کم مدت میں نظر آہی نہیں سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ مطلع غبار آلود ہو یابادل چھائے ہوں تو چاندوقت پر نظر نہ آئے لیکن یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس سے کم مدت میں چاند نظر آجائے۔ (تقویم تاریخی ، مرتبہ: ہاشمی) ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ﴾ (التوبہ:۳۷) ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس دن سے مقرر ہیں جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں ۔ یہی دین قیم ہے۔“ روٴیت اور شہادت اَحادیث میں یہ بات واضح ہے کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کا انحصار روٴیت ِہلال پر ہے۔دیکھے بغیر نہ روزہ رکھا جائے او رنہ افطار یعنی ترک کیا جائے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: صوموا لروٴيته وأفطروا لروٴيته فان غُمّٰی عليکم فأکملوا عدة شعبان ثلاثين ”چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر چاند پوشیدہ ہوجائے تو شعبان کی گنتی تیس دن پوری کرو۔“ (منتقیٰ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ليس المراد به أنه لا يصومه أحد حتی يراه بنفسه‘‘یعنی اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص خود چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھے بلکہ اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ لا یصومہ