کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 28
رہتا؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴿يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾ ”یعنی چاند کے بڑا چھوٹا ہونے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے: یہ لوگوں کیلئے اور حج کے لئے اوقات ہیں ۔‘‘ یہ آیت بتاتی ہے کہ چاند کا بڑا چھوٹا ہونا، اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔ مہینے کے دن قمری مہینے تیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور اُنتیس کے بھی، لیکن زیادہ انتیس دن کے ہوتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما صُمتُ مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم تسعا وعشرين أکثر مما صُمنا ثلثين ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جتنے ماہ روزے رکھے ہیں ، ان میں انتیس دن والے مہینے تیس دن والے مہینوں کی نسبت زیادہ تھے۔“ (ترمذی) بخاری کی ایک اور روایت میں ہے: الشهر هکذا وهکذا وخنس الإبهام فی الثالثة ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ اتنے (دس دن)، اتنے (دس دن) دن کا ہے۔ تیسری مرتبہ انگوٹھے کونیچے کرلیا یعنی نو دن ۔ کل انتیس دن کا ہے۔“ اس سے یا تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ماہِ رواں انتیس دن کا ہے یا یہ کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں : الشهر يکون تسعة وعشرين ويکون ثلاثين ” مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے او رتیس دن کا بھی۔“ اُنتیس دن والے مہینے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بعض حفاظ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو برس روزے رکھے ہیں ، ا ن میں دو رمضان تیس تیس دن کے تھے… امام نووی نے بیان کیا ہے کہ پے در پے دو، تین یا حد چار مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں ۔ مسلسل چار سے زیادہ مہینے انتیس دن کے نہیں ہوتے۔ قمری مہینے طبعی اور فطرتی ہیں قمری مہینے کا آغاز اور اس کی انتہا روٴیت ِہلال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری مہینے طبعی اور فطرتی ہیں ۔ مہینہ کا انتیس یا تیس دن کا ہونا، یہ اختلاف بھی طبعی ہے۔ حسی علامت چاندبذات ِخود تاریخ اور مہینہ کے لئے حسی علامت ہے۔ ہر واقف اور ناواقف چاند دیکھ کر تاریخ اور مہینہ کی ابتدا اور انتہا کا اندازہ بآسانی لگا سکتا ہے۔ ا س کے برعکس سورج، مہینہ اور سال معلوم کرنے کی غیرحسی علامت ہے۔ اس سے سال اورمہینہ کا اندازہ ایک باخبر انسان تو حساب سے کرسکتا ہے مگر جو شخص