کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 27
اور ﴿کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ يَّسْبَحُوْنَ﴾کی آیت بھی بتارہی ہے کہ سورج چاند وغیرہ آسمان میں تیر رہے ہیں ۔ ہلال اور قمر ’ہلال‘ واحد ہے أَہِلَّة کی۔ پہلی یا دوسری رات کا چاندہو تو اسے ’ہلال‘ کہا جاتاہے۔ ابوہیثم رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مہینہ کے آخری دو رات کے چاند کو بھی ’ہلال‘ کہا جاتا ہے جبکہ نصف ماہ کے چاند پر’ قمر‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہلال نام کی وجہ: لہٰذا پہلی اوردوسری تاریخ کے چاند کو ’ہلال‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ چاند نظر آنے پر بغرضِ اطلاع لوگ آواز بلند کرتے ہیں ۔ ہلال کا لغوی معنی آواز بلندکرنا ہے، کہاجاتا ہے: استهلّ الصبی حين يولد یعنی ”پیدائش کے وقت بچہ نے آواز بلند کی“ یو م رات دن کے مجموعہ کا نام ’یوم‘ ہے۔ عربوں کے نزدیک یہ دورانیہ غروبِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ اہل روم اور اہل فارس کے نزدیک طلوعِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک ہے۔ فرق یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک رات پہلے اور دن بعد میں اور اہل روم، اور اہل فارس کے نزدیک دن پہلے اور رات بعد میں آتی ہے۔ چاند کا بتدریج بڑا ہونا اورکم ہونا پہلی تاریخ کو چاند چھوٹا ہوتاہے، روشنی بھی کم ہوتی ہے۔ پھر بتدریج بڑا ہوتا جاتا اور روشنی بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ چودھویں رات تک چاند تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر پندرھویں رات سے گھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ آخر میں کھجور کی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاه مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِيْمِ﴾ (سورة یٰسین :۳۹) ”چاند کے لئے اس کی منزلوں کا ہم نے اندازہ لگایا ہے ۔ حتی کہ وہ اپنی منزل طے کرتا ہوا کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے“ چاند کا یہ چکر ایک مہینہ میں پورا ہوتا ہے اور سال میں بارہ چکر ہوتے ہیں ۔ آیت کا شانِ نزول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ثعلبہ رضی اللہ عنہ دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ شروع میں جب چاند نکلتاہے تو دھاگے کی طرح باریک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج بڑھتے بڑھتے گول ہوجاتاہے، پھر بتدریج گھٹتا گھٹتا پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ سورج کی طرح یہ ایک حالت پر کیوں نہیں