کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 19
مقالات مولانا عبد الغفار حسن
فطری نظامِ تخلیق ، قرآن وسنت کی روشنی میں !
(۱) ﴿يٰأيًّهَا النَّاسُ إنْ کُنْتُمْ فِیْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ، ثُمًّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَکُمْ، وُنُقِرُّ فِیْ الأرْحَامِ مَا نَشَآءُ إلیٰ أجَلٍ مُّسَمًّی﴾ (الحج: ۵)
”لوگو! تم (دوبارہ) جی اٹھنے کے بارے میں شک میں ہو تو (اس بات پر غور کرو) ہم نے تمہیں (کس چیز سے) پیدا کیا؟ مٹی سے۔ پھر( تمہاری پیدائش کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا؟)نطفہ سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے (جو ) شکل والی (بھی ہوتی ہے) اوربے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لئے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر (اپنی ذات کی) کارفرمائیاں ظاہر کردیں ۔ پھر (دیکھو) ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ( کہ تکمیل تک پہنچائیں ) اسے ایک مقررہ میعاد تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں ۔“
اس آیت میں انسانی پیدائش کے مراحل بیان کرنے کے بعد ﴿ لِنُبَيِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِیْ الأرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰی أجَلٍ مُّسَمًّی﴾ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ انسانی تخلیق کے تمام مراحل رحم میں درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے تکمیل کو پہنچتے ہیں ۔ یہی ایک فطری نظام تخلیق ہے، اس کے علاوہ نلکی (ٹیوب) کاطریقہ غیر فطری ہے۔
(۲) ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِيْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً، فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أنْشَأنٰهُ خَلْقًا آخَرَ، فَتَبَارَکَ اللّٰهُ أحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ﴾ (المومنون : ۱۲، ۱۳،۱۴)
”اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھرہم نے اسے ایک محفوظ جگہ نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفے کو خون کا لوتھڑا بنا دیا۔ ہم ہی نے پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھایا، پھر (دیکھو کس طرح) ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر پیدا کردیا۔ پھر (کیا ہی) بابرکت ہستی ہے اللہ( کی) تمام صناعوں سے بہتر صناع۔“
اس آیت میں بھی انسانی تخلیق کے مختلف مدارج و مراحل بیان کرتے ہوئے آغاز میں فرمایا : فی قرارمکین ا س سے مراد رحم مادر ہے، جیسا کہ آیت (۶) میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ