کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 17
جواب: مضاربت کی بنیاد پر تجارت کرنا جائز ہے جس میں نفع و نقصان میں برابر مشارکت ہوتی ہے۔ نقصان میں شریک نہ ہونا اورمنافع کا ماہانہ تعین کرنا، دونوں ہی سود کی قسمیں ہیں جس سے اجتناب ہر مسلمان کا فرض ہے۔
سوال: ایک صاحب ِنصاب شخص، جس کے پاس ساڑھے سات تولے یا ا س سے زائد وزن کا سونا ہے اور اس پر سال گذر چکا ہے۔ وہ زکوٰة کس حساب سے ادا کرے گا جبکہ ہمارے ملک میں سونے کے دو ریٹ یعنی قیمت ِخرید اور قیمت ِفروخت رائج ہیں کیونکہ سنار سونے کے کھوٹ ، پالش وغیرہ کا نام لے کر خود خریدتے ہوئے مکمل وزن کی قیمت نہیں دیتے۔ ایسا شخص زکوٰة قیمت ِخرید کے حساب سے ادا کرے گا یا قیمت ِفروخت کے حساب سے؟ (ابوعبیداللہ، مردان)
جواب: بلا شبہ زکوٰة خالص سونے پر ہے۔ اگر وہ ڈلی کی صورت میں ہے تو اس میں کھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر وہ زیور کی صورت میں ہے تو اس کی زکوٰة میں فقہاءِ اُمت کا اختلا ف ہے، زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے کہ خالص سونے کا حساب لگا کر زیور کی زکوٰة ادا کی جائے۔ زکوٰة کی ادئیگی میں حساب قیمت ِفروخت کا لگائیں ، کیونکہ زکوٰة دینے والے کی حیثیت بائع جیسی ہے، جس کے عوض اس نے اللہ سے جنت حاصل کرنا ہے قرآن مجید میں ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوٴْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ (التوبہ: ۱۱)
”اللہ نے موٴمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (اور اس کے) عوض میں ان کے لئے بہشت (تیار کی) ہے۔“
خودکو کھوٹ کے شبہ سے پاک کرلینا چاہے۔ حدیث میں ہے: دع ما يريبک إلی ما لا يُريبک (فتح الباری: ۴/۲۹۳)
”شبہ والی شے کو چھوڑ کراس کو اختیار کیا جائے جس میں شبہ نہیں ۔“
سلامتی کی راہ یہی ہے کہ اللہ سے کھرے مال کا سودا کیا جائے کیونکہ اس کا عوض کھرا ہے او روہ جنت ہے جس کے اوصافِ کریمہ سے کتاب و سنت بھرا پڑا ہے۔
سوال: بیٹے کی پیدائش پر دوست نے سیونگ سر ٹیفکیٹ (تین ہزار روپے) تحفتاً دیا توبینک میں کچھ عرصہ رقم جمع رہنے پر معلوم ہو ا کہ وہ رقم تو سود کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔اب اصل رقم کی بجائے سود کی زائد رقم کافی مقدار میں بڑھ چکی ہے اور رقم نکلوا کر استعمال بھی کی جاچکی ہے
۱) سود والی زائد رقم کا مصرف کیا ہوگا؟
۲) میں نے جو رقم نکلوا کراستعمال کرلی، کیا اس کاادا کرنا ضروری ہوگا؟
۳) کچھ عرصہ بعد سود کا بڑھنابند کروا دیا تھا۔ رقم تو بڑھتی گئی اس کا کیا بنے گا؟