کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 14
دارالافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی
٭ بلا اجازت لڑکی کا نکاح ٭ روح کو ایصالِ ثواب اور میت پر پھول ڈالنا
٭ مقتدی کیلئے سورة فاتحہ کی قراء ت کا محل lزکوٰة، سونے کی قیمت ِخرید پر یا قیمت ِفروخت پر
سوال : ایک والدنے اپنی جوان، بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر اپنے کسی رشتہ دار لڑکے سے کردیا ہے۔ نکاح سے پہلے وہ لڑکی برملا پکار پکار کرکہتی رہی ہے کہ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے پر راضی نہیں ہوں اور اب نکاح کے بعد بھی وہ لڑکی ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے سامنے رونا شروع کردیتی ہے۔ ا س نکاح کا قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ (عبدالوحید،ضلع قصور)
جواب:بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہونا چاہئے، چاہے نکاح کرنے والا اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے:
والبکر يستأذنها أبوها في نفسها“ (صحیح مسلم: ۱/۴۵۵) ”باپ کنواری لڑکی سے نکاح کے بارے میں اس سے اجازت طلب کرے۔“
علامہ ابن قیم فرماتے ہیں :
”وبهذه الفتوی نأخذ وأنه لا بد من استئمار البکر وقد صح عنه صلی اللّٰه علیہ وسلم : الأيم أحق بنفسها من وليها والبکر تستأمر فی نفسها وإذنها صماتها وفی لفظ والبکر يستأذنها أبوها فی نفسها وإذنها صماتها وفی الصحيحين عنه صلی اللّٰه علیہ وسلم : لا تنکح البکر حتی تستأذن، قالوا: وکيف إذنها؟ قال أن تسکت ۔ وسألته صلی اللّٰه علیہ وسلم جارية بکر، فقالت إن أباها زوّجها وهی کارهة، فخيّرها النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فقد أمر باستئذان البکر ونهي عن إنکاحها بدون إذنها ۔ وخيّر صلی اللّٰه علیہ وسلم من نکحت ولم تستأذن“ (اعلام الموقعین، ۴/۳۴۱،۳۴۲)
”امام صاحب فرماتے ہیں : ہم اس فتویٰ کو لیتے ہیں کہ باکرہ سے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات صحیح ثابت ہے کہ بیوہ اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے اور کنواری سے اس کے نفس کے بارے میں مشورہ لیا جائے اور اس کی خاموشی ، اجازت تصور ہوگی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ باپ باکرہ سے اجازت طلب کرے اور اس کی اِجازت اس کی خاموشی ہے نیز بخاری، مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : باکرہ کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لی جائے۔ لوگوں نے کہا: اس کی اجازت کیسے ہو؟ آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت سمجھی جائے گی۔