کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 98
اسلام اور انسانی حقوق تحریر : عبد العزیز کامل
ترجمہ : محمد اسلم صدیق
انسانی حقوق حق اور باطل کے درمیان!
کون سے حقوق اور کون سے انسان؟
حلق پھاڑ کر نعرے لگانا کتنا آسان ہے لیکن ان نعروں کے پس پردہ حقائق اور کار فرما خفیہ عزائم کا سراغ لگانا اور ان کا اِدراک کرنا بڑا مشکل ہے۔حقوقِ انسانی کا نعرہ بھی اسی طرح کا ایک دلکش، خوبصورت اور پر فریب نعرہ ہے جس کی چمک بڑی مسحور کن ہے اور جوبظاہرہر انسان کے عزت و احترام پر ابھارتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نعرہ کا علمبردار کسے ہونا چاہے؟ کسے حق ہے کہ وہ اس نعرے کوبلند کرے؟ اس کے لوازمات اور اجزائے ترکیبی کون متعین کرے ؟ اورکون ہے جو اس کے اصول اور قواعد وضوابط وضع کرے ؟
یہ تمام سوالات یکے بعد دیگرے اس وقت جنم لیتے ہیں جب مغربی حکومتوں اور مغرب زدہ این جی اوز کے وظیفہ خوار حقوقِ انسانی کے نام نہاد علمبردار بعض اسلامی ممالک کے خلاف بھرپور مہم چلاتے ہیں اور ان کے نظام اور قوانین کو ہدفِ تنقید ٹھہراتے ہیں ۔ کسی کے مال پرہاتھ صاف کرنے والے کا ہاتھ کاٹنا ان کی نظر میں ظلم ہے، دانستہ ناحق خون بہانے والے کوقتل کی سزا دینا ان کی کوتاہ عقل میں وحشت و بربریت ہے۔ شراب پر پابندی عائد کرنا، بے حیائی کے کلچر کے فروغ کو روکنا اورمرتد کو سزا دینا ان کے خیال میں تہذیب و تمدن کے منافی ہے اور فسق و فجور اور دین کے انحراف کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا، یہ سب ان کے نزدیک افراد کی شخصی آزادی کے خلاف کھلا ظلم ہے۔
اگر دینی شعار کے خلاف زبانِ طعن درازکرنے والیمتجددین کا نوٹس لیا جائے تو یہ ان کے نزدیک آزادیٴ اظہار اور آزادیٴ فکر میں کھلی مداخلت ہے۔ البتہ اگر مذہبی اقلیات پر مصالح اقوام اور جمہور کی غالب اکثریت کے اجتماعی نظم کی خلاف ورزی کا الزام ہے تو مناسب طریق کار یہ ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی فورم میں اٹھایا جائے اور الزام درست ثابت ہونے کی صورت میں ا س پر قراردادِ مذمت پاس کی جائے۔ پھر نوٹس جاری کیا جائے اور اس کے بعد قرار واقعی سز ادی جائے۔
کاش ! انسانی حقوق کے منادوں کی تمام تر توانائیاں مظلوم طبقہ کے حقوق کی بازیابی کے لئے انصاف کے مطالبہ پر محدود اور ان کے مصائب و شدائد کے اِزالہ پر مرکوز ہوتیں ۔ اور عوام اور حکام کے