کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 96
۵۔ ”جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔“[1] ۶۔ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔“[2]
۷۔ ”مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع رکھے“[3]
۸۔ ”ہرمسلمان دوسرے مسلمان کو السلام علیکم کہے، خواہ اس سے پہچان ہو یا نہ ہو۔“[4]
۹۔ ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے جو اس پر نہ ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔“[5]
۱۰۔ ”جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا ہوتا ہے۔ اللہ اسکی حاجت روائی میں لگا ہوتا ہے“[6]
۱۱۔ ”بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی باتوں پر کان مت لگاؤ، اور نہ ہی کسی کی ٹوہ میں رہو۔ دنیا کے لئے ریس نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ دشمنی رکھو اور بھائی بھائی بن کر اللہ کے بندے بن جاؤ۔“[7] ۱۲۔ ”چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔“[8]
۱۳۔ ”جو شخص دنیا میں کسی بندے کا عیب چھپائے گا، قیامت کے دن اللہ اس کا عیب چھپائے گا۔“[9]
(۱۳) غیر مسلموں کے حقوق
مملکت ِاسلامیہ میں غیر مسلموں کو بھی وہی قانونی حقوق حاصل ہیں ، جیسے مسلمانوں کو ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی مسلمان غیر مسلم کو قتل کر ڈالتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی فوری داد رسی کرتے اور انہیں انصاف دلاتے۔ مال اور جائیداد کے متعلق ان کے حقوق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضہ میں تھیں ، فتح کے بعد بھی انہی کے قبضہ میں بحال رہنے دی گئیں ۔ ملکی انتظامات میں بھی ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں قاعدہ یہ تھاکہ جو مسلمان اپاہج ہوجاتا تو بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہوجاتاتھا۔ چنانچہ ایسی ہی مراعات ذمیوں کو بھی حاصل تھیں ۔ مذہبی عبادات و رسوم کی ادائیگی میں بھی انہیں پوری آزادی حاصل تھی۔[10] وہ ناقوس بجاتے اور صلیب نکالتے تھے۔ اور اگر کوئی مسلمان ان سے سخت کلامی سے پیش آتا تو وہ سزا کا مستوجب ہوتا تھا۔ماحاصل یہ ہے کہ سوائے کلیدی اسامیوں پر فائز ہونے کے ان لوگوں کو وہ قانونی مراعات حاصل تھیں ، جو مسلمانوں کو حاصل تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ غیر مسلموں نے اپنی ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ یہ غیر مسلم ہی تھے جو مسلمانوں کے لئے رسد بہم پہنچاتے تھے، لشکرگاہ میں مینابازار لگاتے، اپنے اہتمام سے سڑک اور پل تیار کراتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جاسوسی اور خبررسانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ ( قو می سیرت کانفرنس ۱۴۱۲ھ میں پیش کردہ مقالہ)