کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 95
ھ ۔ ہمسایوں کے حقوق
ہمسائے تین طرح کے ہوتے ہیں : (i) رشتہ دار ہمسائے (ii) رفیق ہمسائے (iii) اجنبی ہمسائے۔ اسی ترتیب سے ان کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہمسایوں کے حق کے متعلق آپ نے ایک بار یوں ارشاد فرمایا:
”جبريل يوصينی بالجار حتی ظننت أنه سيورثه“[1]
”جبریل علیہ السلام امین مجھے ہمسایہ کے متعلق تاکید کرتے ہی گئے، تاآنکہ میں یہ خیال کرنے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وراثت میں حق دار بنا دیں گے‘۔‘
ایک بار آپ نے یوں فرمایا:”وہ شخص موٴمن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے، اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو“[2]
نیز فرمایا: ”وہ شخص موٴمن نہیں جس کا ہمسایہ ا س کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔“[3]
اور ایک دفعہ یوں فرمایا: ”اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا آدمی سمجھتے ہیں تو تو واقعی اچھا ہے۔ اور اگر برا سمجھتے ہیں توتو واقعی برا آدمی ہے۔“[4]
ایک مرتبہ آپ سے عرض کیا گیا کہ فلاں عورت خوب نمازیں اور نوافل پڑھتی، روزے رکھتی اور خیرات کرتی ہے۔ مگر اس کے ہمسائے اس کی بدزبانی سے عاجز ہیں ۔ آپ نے فرمایا: ”وہ جہنمی ہے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ فلاں عورت میں یہ خوبیاں تو نہیں ، وہ صرف فرائض ہی بجا لاتی ہے، مگر پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی۔ آپ نے فرمایا: ”وہ جنتی ہے۔“[5]
و۔ عام معاشرہ کے حقوق
معاشرہ میں اُلفت و محبت کے جذبہ کو فروغ دینے کے لئے قرآن مجید میں بھی بہت کچھ مذکور ہے، مگر ہم یہاں بغرضِ اختصار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا:
۱۔ ”تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔ جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم کرب واضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔“[6]
۲۔ ”مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں ، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔“[7]
۳۔ ”دین خیرخواہی کانام ہے۔“ آپ سے پوچھا گیا: ”کس سے خیر خواہی؟“ آپ نے فرمایا: ”اللہ سے، اس کے رسول سے اور تمام موٴمنوں سے خیرخواہی“[8]
۴۔ ”کوئی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔“[9]