کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 94
جاناچاہئے، تاکہ آقا کی ذہنی برتری کا بھی علاج ہوجائے۔ ایک دفعہ ایک غلام روتا چلاتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: ” میں ایک غلام ہوں ، میرے مالک نے مجھے ایک لونڈی کا بوسہ لینے کی پاداش میں خصی کردیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک کوبلایا، لیکن وہ حاضر نہ ہوا۔ اس پر آپ نے یکطرفہ فیصلہ دے دیا، اور فرمایا: ”اذهب أنت حر“ (جا تو آزاد ہے) وہ کہنے لگا: ”اگر میرے مالک نے مجھے پکڑ کر دوبارہ غلام بنا لیا تو پھر میری مدد کون کرے گا؟“ آپ نے فرمایا: ”علی کل مسلم[1] (یعنی ہر مسلمان پر تمہاری مدد کرنا فرض ہے) گویا مسلم معاشرہ یا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ (صحیح سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر ۲۶۸۰) بعد میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں یہ دستور چل نکلا کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مارتا پیٹتا تو دوسرا صحابی رضی اللہ عنہ اسے برملا کہہ دیتا کہ اب اسے آزاد کرو۔ چنانچہ دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس طور پر بھی غلاموں کی ایک کثیر تعداد کو آزادی ملی۔ د۔ رشتہ داروں کے حقوق رشتہ دار دوطرح کے ہیں : ایک قریبی یا خون کے رشتہ دار، دوسرے دور کے رشتہ دار جن سے خونی تعلق نہیں ہوتا۔ ان دونوں سے حسن سلوک کی تاکید توایک جیسی ہے، البتہ قریبی رشتہ داروں کا حق یہ ہے کہ ان سے بہرطور تعلقات استوار اور خوشگوار رکھے جائیں ۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پراس کی تاکید آئی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اکثر سننے میں آتا ہے کہ ”اپنوں سے تو بیگانے ہی اچھے ہوتے ہیں “ ان لوگوں کا یہ قول شریعت ِاسلامیہ کے مزاج کے سراسر خلاف ہے۔اس سلسلہ میں چند ارشاداتِ نبوی ملاحظہ ہوں ۔ آپ نے فرمایا: ۱۔ ”کسی شخص کا یہ کمال نہیں کہ وہ حسن سلوک کا جواب حسن سلوک سے دے۔ بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس کے رشتہ دار اس سے بدسلوکی کریں تو بھی وہ ان سے حسن سلوک سے پیش آئے۔[2] ۲۔ حضرت ابوذرّ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ ”رشتہ داروں کے حقوق پوری طرح ادا کرو، اگرچہ وہ تم سے بدسلوکی سے پیش آئیں “[3] ۳۔ ”جو شخص عام غریبوں کو صدقہ کرے گا اسے ایک اجر ملے گا، لیکن جو اپنے قرابت داروں کی امداد کرے گا، اسے دوہرا اجر ملے گا۔“[4] ۴۔ ”جو شخص صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔“[5] ۵۔ ”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور ا س کی عمر دراز ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔“[6]