کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 93
شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیٹے کا سب کچھ یا حسب ِضرورت مال لے لے۔
ج۔ خادموں کے حقوق
ایک دفعہ آپ سے کسی نے پوچھا: ”میرے پاس ایک ہی دینار ہے، وہ کس پر خرچ کروں ؟“ آپ نے فرمایا) اپنی ذات پر۔“ وہ کہنے لگا، ”اگر ایک اور بھی ہو تو اسے کس پر خرچ کروں ؟“ آپ نے فرمایا: ”اپنی اولاد پر“ وہ کہنے لگا : ”اور اگر ایک اور ہو تو؟“ آپ نے فرمایا: ”اپنی بیوی پر“ وہ کہنے لگا: ”اور اگر ایک اور ہو تو؟“ آپ نے فرمایا: ”اپنے خادم پر“ وہ کہنے لگا کہ ”اگر ایک اور ہو تو؟“ آپ نے فرمایا: ”اب آگے جو تو خود مناسب سمجھے۔“[1]
اس حدیث میں اولاد پر خرچ کرنے کا ذکر بیوی سے پہلے آیاہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ خاوند بہت تنگ دست ہو، جیسے یہ سائل تھا۔ اس صورت میں چھوٹی اولاد بہرحال ماں سے زیادہ محتاج ہوتی ہے۔ ورنہ بیوی کا نمبر اولاد سے پہلے ہے۔
اگرچہ قرآن کریم میں خدام سے حسن سلوک کا جابجا ذکر آیا ہے، تاہم درج ذیل حدیث اس موضوع پر نہایت جامع ہے۔ آپ نے فرمایا:
”إخوانکم خدلکم جعلهم اللّٰه تحت أيديکم فمن کان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأکل وليلبسه مما يلبس ولاتکلفوهم مما يغلبهم فان تکلفوهم فأعينوهم“[2]
”تمہارے خادم، مزدور، غلام تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ نے تمہارے رحم وکرم پر چھوڑا ہے۔ لہٰذا تم میں سے جس کے قبضے میں اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو ویسا ہی کھلائے اور پہنائے جیساوہ خود کھاتا اور پہنتا ہے۔اور اسے ایسا کام کرنے کو نہ کہے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ اور اگر کبھی ایسا کام کرنے کو کہے تو خود بھی اس کا ہاتھ بٹائے۔“
اس ارشاد ِنبوی سے درج ذیل اُمور پر روشنی پڑتی ہے:
۱۔ خَدل کا لفظ خادم، مزدور، غلام سب کے لئے مشترک ہے۔ لہٰذا یہ لوگ معاشرتی لحاظ سے تمہارے برابر ہی نہیں ، بلکہ تمہارے بھائی ہیں ۔ آپ نے إخوانکم کا لفظ پہلے استعمال کرکے اس کی تائید مزید فرما دی۔
۲۔ ایسے خادموں کو کھانے اور پہننے کو وہی کچھ دینا چاہئے جوخود مالک کھاتا اور پہنتا ہے۔ اس سے مزدور کی اُجرت یا تنخواہ کی تعیین پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
۳۔ ولا تکلّفو هم مما يغلبهم ا س سے معلوم ہوا کہ خادموں کے آرام اور آسائش کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی کام ان کی ہمت سے زیادہ ہو تو مالک کو خود اس کام میں اس کا شریک بن