کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 89
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جتنے فیصلے فرمائے، ان میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی تھیں ۔ عدل وانصاف میں تاخیر بذاتِ خود بہت بڑا ظلم ہے۔ اب ہمارے ہاں عدالتوں کا جو حال ہے، وہ خود ملاحظہ فرما لیجئے۔عدل و انصاف کا حصول انتہائی مہنگا ہے، اور فوجداری مقدمات پر بھی سالہا سال لگ جاتے ہیں ۔ دیوانی مقدمات کا تو اور بھی برا حال ہے۔ ہماری عدالتوں کے اس طریقہ کار کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ جرائم کی تعداد میں دم بدم اضافہ ہورہا ہے، اور معاشرہ میں امن و امان کی صورت پریشان کن بن چکی ہے۔ اسلامی قانون کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہاں قانون ساز خود اللہ تعالیٰ ہے، جس کی نظر میں شاہ و گدا، امیر وغریب، آقا و غلام سب برابر ہیں ، لہٰذا شرعی قانون سب پر ایک ہی جیسا لاگو ہے۔ اسلام کی یہی وہ صفت ہے جو اسے دوسرے تمام نظامہائے حیات سے ممتاز کردیتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام نظاموں میں قانونی حاکمیت یا تو کسی ایک انسان کی ہوتی ہے یا کسی ادارہ یا پارلیمنٹ کی۔ ایسے حاکم یا قانون ساز ادارے اپنے آپ کو بہرحال قانون کی گرفت میں آنے سے بچائے رکھتے ہیں ۔ (۹) آزادیٴ رائے کا حق آزادی ٴ رائے اگر معقول حدود میں ہو تو مثبت نتائج پیدا کرتی ہے، اور یہ بے لگام و بے مہار ہو تویہ ہزاروں فتنے پیدا کرکے مملکت کی سرحدوں کو کمزور کرتی رہتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وقتاً فوقتاً حکومتوں کو اس لامحدود آزادی کو مختلف پابندیوں اور ا خلاقی ضابطوں سے محدود کرنا پڑتا ہے۔ اسلام نے آزادی ٴ رائے کو جائز اور لازم قرار دیا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں ہر مسلمان کو آزادی ٴ رائے اور حکومت پرنکتہ چینی کا پورا پورا حق حاصل تھا، جسے وہ اپنا دینی فریضہ تصور کرتا تھا، تاکہ عوام کو ان کے جائز حقوق مل سکیں اور ملک میں نیکی کی حوصلہ افزائی اور برائی کا استیصال ہو۔ یہاں یہ حق کسی خاص جماعت یعنی حزبِ اختلاف کو نہیں کہ وہ حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرے اور اس کے اچھے کاموں کی بھی مذمت کرتی رہے، کیونکہ اسلامی شو ریٰ میں باقاعدہ حزبِ ا ختلاف کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ تاریخ اسلام میں کئی ایسے واقعات مذکور ہیں کہ عام مسلمانوں نے خلفا پر گرفت کی اور انہوں نے اسے تسلیم ہی نہ کیا، بلکہ اس جذبہ تنقید کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ ایسے واقعات کا اس مختصر مقالہ میں ذکر کرنا بہت مشکل ہے۔ (۱۰) حق تعلیم اسلام میں تعلیم حاصل کرنا ا س کا لازمی حصہ ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا علم کے فضائل کا ذکر