کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 87
ضرورت ہو، لیکن سرمایہ دار یہ سمجھے کہ اس وقت اسے شراب بنانے میں زیادہ فائدہ ہے تو وہ شراب ہی مہیا کرے گا اور حکومت اس پر کوئی گرفت نہیں کرسکتی۔ اس کے برعکس اشتراکیت میں یہ حقوق یکسر چھین لئے گئے ہیں ۔ چنانچہ ہر شخص کے لئے حکومت خود کاروبار تجویز کرتی ہے، اور اسے بس ایک مشین کی طرح وہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اسلام میں اس حق کو تسلیم کیا گیاہے، مگر چند در چند پابندیوں کے ساتھ، مثلاً جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں ، ان کی خرید و فروخت بھی حرام ہے۔ چنانچہ شراب نوشی اگر حرام ہے تو شراب فروشی بھی حرام ہے۔ اگر مردار حرام ہے، تو اس کی کسی بھی چیز کو نہ فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی خود اس سے کچھ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ چوری، ڈاکہ، غصب، رشوت، رہزنی وغیرہحرام،ان سے حاصل شدہ مال بھی حرام ہے۔ حرام اشیا میں سرفہرست سود ہے۔ سود اس کی تمام شکلوں کو، خواہ یہ مہاجنی قرضے ہوں یا کمرشل انٹرسٹ، سود مفرد ہو، مرکب یا ڈسکاؤنٹ (منی کاٹا) یا مارک اَپ اور مارک ڈاؤن۔ شریعت نے نہ صرف حرام، بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ کیونکہ طبقاتی تقسیم جس قدر سود سے بڑھتی ہے، اور کسی چیز سے نہیں بڑھتی، جو بالآخر فتنہ و فساد اور لوٹ مار پر منتج ہوتی ہے۔ سود چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، اس لئے اس کی کوکھ سے اس کی دوسری انتہا اشتراکیت نے جنم لیا۔ سود کی حرمت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع میں بالخصوص اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وربا الجاهلية موضوع وأول ربا أضع من ربانا ربا عباس بن عبد المطلب فإنه موضوع کله“ (صحیح مسلم: کتاب الحج، باب حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ”دورِ جاہلیت کا سود موقوف کیا جاتا ہے۔ اور پہلا سود جو میں تمام کا تمام موقوف کرتا ہوں ، وہ اپنے قبیلہ میں سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا سود ہے!“ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے حقیقی چچا تھے جو تجارت کے لئے رقم سود پر دیا کرتے تھے۔ گویا آپ نے اس اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرکے سود کا جزیرة العرب سے خاتمہ کردیا۔ اسلام انسان کی کمائی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: ایک حلال، دوسرا حرام! … حرام کمائی کی تمام تر تفصیلات کتاب و سنت میں مذکور ہیں ۔ اس حرام کمائی سے بچتے ہوئے ہر انسان پیشہ کاانتخاب نیز کمائی کے ذرائع کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اور اس طرح جتنی بھی دولت وہ کمالے، یہ اس کی جائز آمدنی اور اس کی ملکیت ہوگی۔ تاہم اس جائز کمائی پر بھی کچھ پابندیاں عائد ہیں : اسلام مال کو ضائع کرنے، دولت کے بے جا