کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 85
ناقابل قبول ہے۔ (النور:۴) (iii) شراب نوشی کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق ۴۰ کوڑے یا ۸۰ کوڑے ہے۔[1] کیونکہ شرابی نشہ کی حالت میں بعض دفعہ لوگوں کی بے عزتی کر دیتا ہے اور بعض دفعہ کسی پر تہمت بکنے لگتا ہے۔ یہ تو جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے سلسلہ میں حدود و تعزیرات کا ذکر تھا۔ اب اسی سلسلہ کے درج ذیل ارشاداتِ نبوی بھی ملاحظہ فرما لیجئے : ۱۔ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں ۔[2] (یعنی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ) ۲۔ جو شخص اپنے مال کو بچاتے ہوئے مارا جائے، وہ شہید ہے۔[3] ۳۔ مسلمان پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔[4] ۴۔ کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔[5] ۵۔ مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔[6] (۴) حق ملکیت سرمایہ دارانہ نظا م میں زمین اور دوسری اشیا کا غیر مشروط حق ملکیت تسلیم کیا گیا ہے۔ ایک سرمایہ دار اپنے سرمایہ سے، جیسے بھی چاہے، اپنی دولت میں اضافہ کرسکتا ہے، خواہ اس کا یہ طریق کار معاشرہ کے اخلاق یا معاش کے لئے کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف اشتراکیت میں حق ملکیت کو یکسر ختم کیا گیا ہے اور سب کچھ قومی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ جب کہ اسلام فرد کے حق ملکیت کو تسلیم تو کرتا ہے مگر چند شرائط کے تحت۔ اسلامی نقطہ نظر سے ہر چیز کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اور انسان یا جماعت کے پاس جو کچھ ہے، وہ بطورِ امانت ہے۔ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تحت ہی تصرف کرسکتے ہیں ۔ قدرتی اشیاء سے استفادہ کے معاملہ میں ہر شخص کو مساویانہ حق حاصل ہے ۔ مثلا ً جنگل کی لکڑیوں کو جو شخص بھی اکٹھا کرکے لائے گا، وہ اسی کی ہوں گی۔ خواہ وہ انہیں خود استعمال کرے یا بازار میں جاکر بیچ دے یا کوئی شخص اگر محنت کرکے پانی کے چشمہ سے پانی لاتا ہے تو وہ اسی کا ہوگا، کوئی دوسرا اس سے چھین نہیں سکتا۔ اس طرح اگر جنگل میں کوئی پھلدار درخت اُگ آیا ہے اور وہ زمین کسی کی ملکیت بھی نہیں ، تو جو شخص سب سے پہلے وہاں جاکر قبضہ کرے گا اور ا س کی حفاظت کا اہتمام کرے گا، تو وہ اسی کی ملکیت بن جائے گا۔حتیٰ کہ اسلامی نقطہ نظر سے تو اگر کوئی شخص بنجر اور غیر مملوکہ زمین کو آباد کرلیتا ہے ، تو وہ اسی کی ہوجاتی ہے۔[7]