کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 84
(۲) مال کی حفاظت اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل سزائیں قرآنِ مجید میں نازل ہوچکی تھیں : (i) چور کی حد یہ ہے کہ چور، خواہ مرد ہو یا عورت، اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ (المائدہ:۳۸) (ii) راہزنی اور ڈاکہ وغیرہ کے لئے قرآنِ مجید میں چاسزائیں مذکور ہیں : (۱) سولی، (۲) قتل ، (۳) آمنے سامنے کے ہاتھ پاؤں کاٹنا اور (۴) جلاوطنی (المائدة:۳۳) قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک یا کئی ایک سزائیں ، جرم کی نوعیت کا لحاظ رکھتے ہوئے دے دے۔ آج کل اسلامی سزاؤں کو، اور بالخصوص چوری کی سزا کو، وحشیانہ قسم کی سزا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ تجربہ سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ لوگوں کے اَموال کی حفاظت صرف اسی صورت میں ممکن ہے اور شرعی سزاؤں کے نفاذ سے جرائم کی تعداد میں حیرت ناک حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔ آپ نے ان سزاؤں کے نفاذ میں جس قدر استقلال کا ثبوت دیا، اس کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے بخوبی ہوسکتا ہے: قریش کی ایک ذیلی شاخ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی۔ قبیلہ قریش کے لوگ عرب میں بڑے معزز سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر فاطمہ کا ہاتھ کٹ گیا تو سارا قبیلہ بدنام ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ سفارش کی راہیں تلاش کرنے لگے۔ بالآخر نظرانتخاب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پر پڑی۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ سفارش کی تو آپ کو ان پر بھی سخت غصہ آگیا۔ آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا : إنما أھلک الذین قبلکم أنھم کانوا إذا سرق فیھم الشریف ترکوہ وإذا سرق فیھم الضعیف أقاموا علیہ الحد وأیم اللہ لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدھا[1] ” تم سے پہلے کی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک کی گئیں کہ اگر ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ (۳) آبرو کی حفاظت (i)آبرو ریزی یعنی زنا کی حد غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑے مقرر ہے۔ (النور:۲) اور شادی شدہ کے لئے رجم ہے۔[2] اگر عورت سے جبرا ً یہ فعل کیا گیا ہوتو حد صرف مرد پر جاری ہوگی اور عورت بچ جائے گی۔ اور اگر یہ کام باہمی رضا مندی سے ہو تو دونوں پر حد جاری ہوگی۔ (ii) کسی عورت یا مرد پر تہمت لگانے کی سزا ۸۰ کوڑے مقرر ہے، اور توبہ سے قبل اس کی گواہی