کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 83
۲۔ یہ قصاص محض قتل میں نہیں بلکہ اعضاء و جوارح میں بھی قصاص ہے، جس کی تفصیل احادیث میں موجود ہے۔ ۳۔ قتل سے متعلق مندرجہ ذیل سزائیں قرآنِ مجید میں مذکور ہیں : (i) مسلمان کے دانستہ خونِ ناحق کی سزا ابدی جہنم ہے جس پر اللہ کا غضب اور لعنت مستزاد ہے۔ (النساء:۹۳) (ii) مسلمان کے قتل خطا کی سزا مقتول کے وارثوں کو خون بہا دینا اور ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (النساء: ۹۲) (iii) مقتول اگر معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہو تو غلام آزاد کرنا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دینا ہے۔ اگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا، اور وہ خود موٴمن ہو توبھی ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (النساء:۹۲) (iv) نوزائیدہ بچیاں زندگی درگور کرنے کو بھی، جس کا عرب میں عام رواج تھا، قتل ہی قرار دیا گیا ہے۔ (التکویر: ۸۔۹) (v) قتل ناحق کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا ہو۔ (المائدہ:۳۲) قتل کی سب سے ہلکی سزا یہ ہے کہ مقتول کے وارث دیت پرراضی ہوجائیں ، اور اگر وہ راضی ہوجائیں تویہ ان کی مہربانی ہے۔ دیت کی مقدار سو اونٹ ہے جو دورِ جاہلیت میں مروّج تھی۔ شریعت نے اسی کو بحال رکھا ہے۔ یا سو اونٹ کی قیمت کے لگ بھگ نقد رقم ادا کرنا ہوگا۔ آپ کی بعثت سے پیشتر عرب میں قبائلی نظام رائج تھا۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ پڑتے اور قتل و غارت پر اتر آتے تھے۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی شخص قتل ہوجاتا تو جب تک یہ قبیلہ قاتل کے قبیلہ کے کسی شخص کو قتل نہ کرلیتا، چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔ پھریہ سلسلہ پشت در پشت آگے چلتا رہتا اور ختم ہونے میں نہ آتاتھا، اس کے متعلق آپ نے اسی خطبہ حجة الوداع میں ارشاد فرمایا: ألا کل شئ من أمر الجاهلية تحت قدمی موضوع ودماء الجاهلية موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربيعة بن حارثة[1] ”خبردار! دورِ جاہلیت کا ہر کام میرے ان دونوں قوموں کے نیچے رکھا گیا ہے۔ دورِ جاہلیت کے تمام خون موقوف کردیئے گئے ہیں ، اور سب سے پہلا خون جو میں موقوف کرتا ہوں ، وہ ہمارا خون : ربیعہ بن حارثہ کا خون ہے!“ گویا اس موقع پر آپ نے اپنے قبیلہ کا خون موقوف کرکے اس برے دستور کا خاتمہ فرما دیا۔