کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 82
فليبلغ الشاهد الغائب فرب مبلّغ أوعیٰ من سامع[1] ”یہ کون سا مہینہ ہے؟“ ہم نے عرض کی: ”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔“ آپ خاموش ہوگئے، تاآنکہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ اس مہینہ کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا:”کیا یہ ذوالحجہ نہیں ؟“ ہم نے عرض کی ”جی ہاں !“ پھر آپ نے پوچھا: ”یہ شہر کون سا ہے؟“ ہم نے کہا ”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔“ آپ خاموش ہوگئے، تاآنکہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا : ”کیا یہ البلدة (مکہ) نہیں ؟“ ہم نے کہا ”جی ہاں “ پھر آپ نے پوچھا: ”یہ کون سا دن ہے؟“ ہم نے کہا: ”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔“ آپ خاموش ہوگئے تاآنکہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز فرمائیں گے، اس پر آپ نے فرمایا: ”کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟“ ہم نے کہا: ”جی ہاں “ تب آپ نے فرمایا ”بلاشبہ تم پر تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح حرام ہیں ، جس طرح اس مہینہ کی، اس شہر مکہ میں اور اس قربانی کے دن میں حرمت ہے۔ اور بلاشبہ تم عنقریب اپنے پروردگار سے ملو گے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ خبردار! میرے بعد گمراہ ہو کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔“ پھر آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا، ”کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی، ”جی ہاں “ تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! گواہ رہنا۔“ پھر آپ نے فرمایا جو شخص یہاں موجود ہے، اسے چاہئے کہ وہ یہ بات اس شخص تک پہنچا دے، جو یہاں موجود نہیں ، کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہوتا ہے، جس کو بات پہنچائی جائے گی۔“ غور فرمائیے! اس ارشادِ مبارک میں تین قسم کی، اور تہری حرمت بیان کرنے کے بعد جان، مال اور آبرو کی حرمت کو اس تہری حرمت کے مانند قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی آپ نے یہ تاکید بھی فرما دی کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں ، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دیں ، جو یہاں موجود نہیں ۔ تاکہ یہ پیغام دنیا بھر کے لوگوں تک اور قیامت تک کے لوگوں کو پہنچ سکے۔ جان، مال اور آبرو کی حفاظت سے متعلق آپ کے اس مختصر مگر جامع ارشاد سے پہلے جو اَحکام نازل ہوچکے تھے، مختصراً درج ذیل ہیں : (۱) جان کی حفاظت قتل ناحق کو شدید ترین اور ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ۱۔ ﴿وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰأوْلِیْ الاَلْبَابِ﴾ (البقرة:۱۷۹) ”اے عقل والو! قصاص میں تمہارے لئے زندگانی ہے۔“