کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 81
اس آیت کے نازل ہونے سے آپ کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ اب آپ کی زندگی کا مشن پورا ہوچکا ہے، نیزیہ کہ اب آپ اپنی زندگی کی آخری منازل طے فرما رہے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے اپنے خطبہ کا آغاز ہی اِن الفاظ سے فرمایا: أيها الناس اسمعوا قولی فإنی لا أدری لعلی ألقاکم بعد عامی هذا بهذا الموقف أبداً ”لوگو! میری باتیں غو رسے سن لو! شاید اس سال کے بعد، اس مقام پر میں پھر تم سے نہ مل سکوں “ اس خطبہ کی حیثیت گویا آپ کی وصیت کی تھی۔ لہٰذا آپ نے اس موقع پر صرف ان امور کی تاکید فرمائی جنہیں آپ انسانی فلاح و بہبود کے لئے نہایت اہم خیال فرماتے تھے۔ نیز یہ خطبہ دراصل پہلے سے نازل شدہ بہت سے احکامات کا خلاصہ تھا۔ اس خطبہ کا اکثر حصہ چونکہ انسانی حقوق کی تعیین پرمشتمل ہے، لہٰذا اگر اسے انسانی حقوق کے سب سے پہلے چارٹر کانام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس خطبہ کا کثیر حصہ تو آپ نے اونٹنی پر سوار ہو کر عرفہ کے دن میدانِ عرفات میں ارشاد فرمایا اور کچھ تھوڑا سا حصہ واپسی پر منیٰ میں ارشاد فرمایا تھا۔ صورتِ حال یوں تھی کہ آپ یہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور آپ کے الفاظ کو درمیان میں کھڑے لوگ پچھلوں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کر رہے تھے۔ بعض باتیں آپ دو تین بار دہراتے۔ اس خطبہ کے آغاز میں ہی آپ نے سب سے اہم تین بنیادی حقوق: جان ومال اور آبرو کی حفاظت کاذکر فرمایا۔اور جس بلیغ انداز سے ان کا ذکر فرمایا، اسی سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آپ کے تمام تر خطبہ کا اندازیہ تھا کہ جب آپ ایک بات بیان فرما لیتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھتے کہ کیا میں نے یہ بات پہنچا دی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب یہ جواب دیتے کہ ہاں آپ نے پہنچا دی تو ”اللّٰهم اشهد!“ فرماتے۔یعنی ”اے اللہ! اس بات پر گواہ رہنا“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ جماعت اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا ہے۔ جان، مال اور آبرو کی حفاظت کی اہمیت کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کے لئے آپ نے جو انداز اختیار فرمایا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہم سے پوچھا : أي شهر هذا؟ قلنا اللّٰه ورسوله أعلم، فسکت حتی ظننا آنه سيُسَمِّيه بغير اسمه : أليس ذا الحجة؟ قلنا، بلیٰ قال أی بلد هذا؟ قلنا اللّٰه ورسوله أعلم فسکت حتی ظننا أنه سيسميه بغير اسمه ، قال: أليس يوم النحر؟ قلنا، بلیٰ، قال فإن دماء کم وأموالکم وأعراضکم عليکم حرام کحرمة يومکم هذا فی بلدکم هذا فی شهرکم هذا وستلقون ربکم فيسألکم عن أعمالکم ألا فلا ترجعوا بعدی ضلالا يضرب بعضکم رقاب بعض ألا هل بلّغت؟ قالوا نعم۔ قال اللّٰهم اشهد۔