کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 80
اسلام اور انسانی حقوق مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ اِنسانی حقوق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرہ سے فتنہ و فساد کے خاتمہ اور امن وامان کے قیام کے لئے معاشرہ کے افراد کے حقوق وفرائض کی تعیین نہایت ضروری چیز ہے، اور یہ تعیین دو طرح سے ہوتی ہے : ایک صورت یہ ہے کہ معاشرہ کے کچھ سمجھدار لوگ اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں ایسے حقوق و فرائض باہمی مشورہ سے طے کرلیتے ہیں ۔ ایسی تعیین کبھی تو درست ثابت ہوتی ہے اور کبھی غلط،کیونکہ انسان کی عقل بھی محدود ہے اور علم بھی ۔ لہٰذا ایسی تعیین ہمیشہ تجربات کے دور سے گزرتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ دوسری قسم کی تعیین وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے خود ہی تجویز فرمایا ہے۔ ۱نبیاء کرام علیہم السلام کو بذریعہ وحی ایسی ہدایات و احکامات دے دیئے جاتے ہیں جنہیں عوام الناس تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان تھے تو ساتھ ہی نبی بھی تھے۔ انہی سے اس سلسلہ کی ابتدا ہوئی، جبکہ انتہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔ گویا تعیین الٰہیہ اور تعیین انسانی میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر غیر متبدل ہے اور لوگوں کو اپنے پیچھے چلنے کی دعوت دیتی ہے۔ جب کہ ثانی الذکر، جو لوگوں کے تجربات و مشاہدات اور خواہشات کے نتیجہ میں معرض وجود میں آتی ہے، ہمیشہ تغیر و تبدل کی زد میں رہتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اوّل الذکر خود متبوع، اور عوام اس کے تابع ہوتے ہیں ۔ جبکہ ثانی الذکر تعیین خود لوگوں کی خواہشات کے تابع ہوتی ہے۔ ہماری شریعت کا ایک کثیر حصہ ایسے احکامات و ارشادات پر مشتمل ہے جو انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی وفات سے صرف تین چار ماہ پیشتر فریضہ حج ادا فرمایا۔ ہجرت کے بعد یہ آپ کا پہلا اور آخری حج تھا ۔ اس موقع پر آپ نے تقریباً سوا لاکھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایاجو خطبہ حجة الوداع کے نام سے مشہور ہے۔اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ ”آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پراپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت ِدین پسند کرلیا ہے۔“ (المائدة:۳)