کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 78
اس حديث كے متن مفہوم اور سند ميں سے كوئى بهى اس قابل نہيں كہ اس كا اعتبار كيا جائے او راسے عقيدہ جيسى بنيادى چيز ميں حجت بنايا جائے۔ اور شيخ عبدالقادر جيلانى رحمہ اللہ كى طرف منسوب قول كتاب وسنت بلكہ خود ان كى اپنى تعليمات كے منافى ہے۔ حضرت شاہ ولى اللہ نے البلاغ المبين ميں ان كا قصہ نقل كيا ہے كہ انہوں نے اللہ سے بارش كى دعا كى تومينہ برسا اوربادل سے آواز آئى كہ عبدالقادر ميں نے تيرے لئے حرام چيزوں كو حلال كرديا ہے۔ليكن تعوذ اور لاحول پڑهنے پر يہ شيطانى دهوكہ زائل ہوگيا او رانہوں نے الله سے بندگى كا اظہار كيا نہ كہ خود مختارى اور رفع ضرر كرنے كا دعوىٰ اور قرآن ميں ہے ﴿اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاه وَيَكْشِفُ السَّوْءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الأَرْضِ أإِلٰه مَّعَ اللّٰه قَلِيْلاً مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ ( النمل:62) ”بهلا كون بے قرار كى التجا قبول كرتا ہے، جب وہ اس سے دعا كرتا ہے اوركون اس كى تكليف كو دور كرتا ہے اوركون تمہيں زمين ميں (اگلوں كا) جانشين بناتا ہے ؟(يہ سب كچھ اللہ كرتا ہے) ۔تو كيا اللہ كے سوا كوئى اور معبود بهى ہے۔(ہرگز نہيں مگر) تم بہت كم غور كرتے ہو۔“ سوال: كيا كوئى شخص بيت الخلاسے نكل كر بغير وضو اذان دے سكتا ہے۔ قرآن و سنت سے رہنمائى فرمائيے۔ كيا رسول صلى اللہ عليہ وسلم يا صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے بهى ايسا كيا؟(مياں عبدالحق مقصود) جواب:حديث ميں ہے : ”كان النبى صلی اللّٰه علیہ وسلم يذكر اللّٰه على كل أحيانہ يعنى ”نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ كا ذكر كرتے تهے يعنى خواہ بے وضو ہوتے ياوضو سے “(مسلم) اور جس حديث ميں ہے كہ اذان باوضو ہونى چاہئے، وہ ضعيف ہے۔ (اِرواء الغليل :1/240) سوال: دورانِ ركوع نظر كہاں ركهنى چاہئے؟ (زبير احمد اظہر، گوجرانوالہ) جواب:نگاہ نيچے مقام سجود پرہونى چاہئے۔ تفسير ابن كثير (3/316) مستدرك حاكم (2/426) صفة صلاة النبى صلی اللہ علیہ وسلم : ص58 از علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ سوال: چار ركعتوں والى نماز كے پہلے تشہد ميں درود شريف پڑهنے كا كيا حكم ہے۔ بعض لوگ نہ پڑهنے كے قائل ہيں ، بعض جواز او ربعض واجب گردانتے ہيں ؟ جواب:حديث كے عموم كى بنا پر پہلے تشہد ميں درود پڑهنے كاجواز ہے ”قولوا: اللّٰهم صل على محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم (صحيح بخارى: كتاب الدعوات، باب الصلوٰة على النبى صلی اللہ علیہ وسلم ) سوال: خالق كائنات كے سوا مخلوق كى قسم اُٹهانا ناجائز ہے تو قرآن جو كہ كلام اللہ اور غير مخلوق ہے تو آيا اس كى قسم اٹهائى جاسكتى ہے؟ جواب: قرآن چونكہ اللہ كى صفت ہے لہٰذا اس كى قسم كهائى جاسكتى ہے (عون المعبود :3/216) ميں