کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 77
پيش خدمت ہيں ۔ ان دلائل كا محققانہ تجزيہ فرماكر مدلل جواب مرحمت فرمائيے۔ ”واقعہ آدم: طبرانى نے معجم صغير ميں ، حاكم، ابونعيم اوربيہقى نے حضرت عمر رضى اللہ عنہ اور حضرت على رضى اللہ عنہ سے روايت كيا ہے۔ امام قسطلانى نے المواہب ميں ، محدث ابن جوزى نے اپنى كتاب ’الوفا باحوال المصطفىٰ‘ كے پہلے باب ميں انہيں جمع كيا ہے۔ مولانا اشرف على نے ’نشر الطيب‘ كى دوسرى فصل كا آغاز انہى احاديث كے بيان سے شروع كيا ہے۔ حضرت ميسرہ رضى اللہ عنہ سے مروى ہے كہ حضور صلى اللہ عليہ وسلم كا ارشاد ہے ”واستشفعا باسمى إليه“ آدم و حوا نے اللہ كے حضور صلى اللہ عليہ وسلم ميرے نام كا وسيلہ پيش كيا۔ (الوفا ) حضرت امام باقر والى حديث (تفسير درمنثور) علامہ ابن تيميہ رحمہ اللہ (فتاوىٰ ابن تيميہ) نزهته الخواطر الغاترنى (ملا على قارى: صفحہ41) اورحضرت غوث اعظم كا يہ قول بهى نقل فرمايا ہے: ”جو كوئى رنج و غم ميں مجہ سے مدد مانگے، اس كا رنج و غم دور ہوگا او رجو سختى كے وقت ميرا نام لے كر مجهے پكارے تو شدت رفع ہوگى اور جو كسى حاجت ميں ربّ كى طرف مجھے وسيلہ بنائے گا، اس كى حاجت پورى ہوگى۔“ (محمد احسان الحق،نادر آباد ،لاہور كينٹ) جواب: حضرت آدم عليہ السلام سے خطا سرزد ہوئى اور اللہ تعالىٰ نے انہيں معاف فرمايا۔ قرآن مجيد اور احاديث ِصحيحہ پر غور كرنے سے بخوبى واضح ہوتا ہے كہ ان كى غلطى استغفار و توبہ كى وجہ سے معاف ہوئى نہ كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كى ذات كو وسيلہ بنانے سے، قرآن ميں ہے: ﴿فَتَلَقّٰى آدَمُ مِنْ رَّبِّه كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْه﴾ ”حضرت آدم نے اپنے ربّ سے چند كلمات سيكهے تو اللہ نے ان كى توبہ قبول كى “ قرآن كريم ميں ايك دوسرے مقام پر ہے كہ آدم عليہ السلام نے اللہ تعالىٰ سے يہ كلمات سيكهے تهے : ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ﴾ (الاعراف:23) ”ان دونوں نے كہا: اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنى جانوں پر ظلم كيا اور تو نے ہم كو نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ كيا تو ہم نقصان اٹهانے والوں ميں ہوں گے۔“ اس سے معلوم ہوا كہ آدم و حوا نے اپنى خطا اور گناہ كے اعتراف كو وسيلہ بنا كراللہ تعالىٰ كى جناب ميں توبہ كى ۔ اللہ نے ان كى توبہ قبول فرمائى كيونكہ وہ تواب اور رحيم ہے، يہى قرآن كى شہادت ہے۔ مذكورہ بالا روايت كى سند ميں راوى عبدالرحمن بن زيد بن اسلم پر محدثين نے كلام كيا ہے كہ وہ ضعيف ہيں ۔ خود حاكم نے اپنى كتاب الضعفاء ميں ان كو ضعيف قرار ديا ہے ۔ علامہ ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اس پر تعجب كيا ہے كہ حاكم نے اس روايت كو كيسے نقل كرديا اور كتاب المدخل ميں انہوں نے تصريح كى ہے كہ عبدالرحمن اپنے والد موضوع احاديث كى روايت كرتے تهے۔ علامہ ابن تيميہ كا بيان ہے كہ عبدالرحمن بن زيد بالاتفاق ضعيف ہے،كثرت سے غلطياں كرتا ہے۔ امام احمد، ابوزرعہ، ابوحاتم، نسائى اور دارقطنى وغيرہ سب نے اسے ضعيف قرار دياہے۔ خلاصہٴ كلام يہ ہے كہ