کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 75
بهى كراہت كى شكل واضح ہے ،اس لئے ايسى مسجد ميں نماز پڑهنے اور پڑهانے سے احتراز ضرورى ہے۔ الكوكب النووى(1/153 )ميں ہے كہ قبروں پربنائى گئى مسجد ميں نماز پڑهنا مكروہ ہے، چاہے قبر سامنے ہو يا پيچهے يا دو جانب سے كسى ايك جانب ميں ۔ البتہ اگر قبر سامنے ہو تو شديد ترين كراہت ہے۔ فقہاءِ شافعيہ نے كہا قبروں پر مسجديں بنانا اور ان ميں نماز پڑهنا كبيره گناه ہے۔(الزواجر :1/12) اور فقہاءِ مالكيہ نے كہا كہ حرام ہے(تفسير قرطبى:1/38)۔ اور فقہاءِ حنابلہ نے كہا: ايسى مسجدوں ميں نماز پڑهنا حرام بلكہ باطل ہے۔تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو ، زادالمعاد :3/22 اور مجموعہ فتاوىٰ :27/140،141 سوال: اگر قبر كسى وجہ سے زمين كے برابر ہوجائے، تو عذاب قبر ختم ہوجاتاہے يا نہيں ؟ جواب:بلاشبہ كتاب و سنت كى متعدد نصوص ميں عذابِ قبر كا اثبات برحق ہے۔ مثلاً امام بخارى رحمہ اللہ نے اپنى صحيح ميں باب ماجاء فى عذاب القبر عنوان قائم كركے قرآنى آيات اور احاديث سے اس مسئلہ پر فقيہانہ انداز ميں استدلال كيا ہے۔ پهر شارح حافظ ابن حجر رحمہ الله نے اس پرشرح و بسط كا خوب حق ادا كيا ہے۔ عقل پرست لوگوں كے شكوك و شبہات وارد كركے عقلى اور نقلى دلائل سے خوب ان كا محاكمہ كيا ہے جو لائق مطالعہ ہے۔ اس كے ضمن ميں وہ فرماتے ہيں : وإنما أضيف العذاب إلى القبر لكون معظمه يقع فيه ولكون الغالب على الموتى أن يقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء اللّٰه تعذيب من العصاة يعذب بعد موته ولو لم يدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلامن شاء اللّٰه“ (فتح البارى:3/233) ”يعنى عذاب كى اضافت قبر كى طرف اس لئے ہے كہ اكثر و بيشتر عذاب اسى ميں ہوتا ہے اور اس لئے بهى كہ غالبا ً مردوں كو قبروں ميں دفن كيا جاتاہے، ورنہ كافر اور نافرمان جن كو اللہ عذاب ميں مبتلا كرنا چاہتا ہے اگرچہ وہ دفن نہ ہوں ، عذاب سے بچ نہيں سكتے ليكن يہ سب مخلوق كى نظروں سے اوجهل ہے، اظہار وہاں ہوتا ہے جہاں اس كى مرضى ہو۔“ حقيقت يہ ہے كہ قبر كے ہموار ہونے سے عذابِ قبر ميں كوئى فرق واقع نہيں ہوتا بلكہ اس كا تعلق برزخى زندگى سے ہے۔ اگرچہ كوئى سمندر ميں غرق ہويا كسى كى راكہ كو ہوا ميں اڑا ديا جائے يا جنگلى درندے كہا پى جائيں ، پهر بهى انسان قبر كے محاسبہ سے بچ نہيں سكتا۔ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو شرح عقيدۂ طحاويہ اور التذكرة از امام قرطبى رحمہ اللہ ۔ سوال: كيا خطبہ جمعتہ المبارك ميں سورة ’ق‘ مكمل يا اس كى كچھ آيات پڑهنا ضرورى ہيں ۔كيا اس كے بغير خطبہ جمعہ خلافِ سنت ہوگا ؟ صحيح حديث كى روشنى ميں وضاحت فرمائيں ؟ صحيح مسلم ميں اُم ہشام بنت حارثہ رضى اللہ عنہ سے روايت ہے يقرأها كل جمعة على المنبر إذا خطب الناس… كہ نبى كريم