کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 74
دار الافتاء شيخ الحديث حافظ ثناء الله مدنى ٭ قبرستان كى مسجد٭ قبركے باهر عذابِ قبر٭ غير الله كا وسيلہ پكڑنا ٭ خطبہ جمعہ ميں سورة ق ٓ ٭ جھوٹے كى امامت سوال:كيا اس مسجد ميں نماز پڑهنا اور اِمامت كرانا جائز ہے جس كى قبلہ والى ديوارقبرستان سے ملتى ہے۔ اسى طرح جنوب مشرق كى طرف مسجد سے ملحقہ ايك دربار ہے جس ميں شرك كيا جاتا ہے۔ اكثر حاضرين مسجد كا عقيدہ شركيہ ہے نيز مسجد كى قبلہ ديوار ميں دو كهڑكياں ہيں جن كو بوقت ِضرورت كهولا جاتاہے تو سامنے قبريں نظر آتى ہيں ۔ (ناظم دفتر جامعہ اشاعت الاسلام ،عارف والا) جواب: 1۔ صحيح مسلم ميں حديث ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: قبروں كى طرف نماز نہ پڑهو نہ ان پر بيٹهو۔ 2۔رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: تمام زمين مسجد ہے سوائے قبرستان اور حمام كے۔ (رواہ خمسہ اِلا نسائى) 3۔آپ نے فرمايا:كچھ نماز گهروں ميں پڑهو اور ان كو قبريں نہ بناؤ۔ (رواہ الجماعہ اِلا ابن ماجہ) 4۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرى بيمارى ميں فرمايا: ” اللہ يہود و نصارىٰ پر لعنت كرے انہوں نے اپنے انبيا كى قبروں كو مسجديں بناليا“ (متفق عليہ) 5۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا : ”اپنے گهروں كو قبريں نہ بناؤ۔ بے شك شيطان اس گهر سے بهاگتا جاتا ہے جس ميں سورۂ بقرہ پڑهى جائے۔‘‘ (مسلم) پہلى حديث ميں قبروں كى طرف نماز پڑهنے سے منع فرمايا گيا ہے۔ سوال ميں جس مسجدكا ذكر ہے اس كے سامنے چونكہ كهڑكياں كهلتى ہيں ، اس لئے اس ميں نماز پڑهنا قطعاً حرام ہے كيونكہ قبروں كا منظر سامنے ہوتا ہے۔ اگر كهڑكياں بند ہوں توبهى ٹهيك نہيں كيونكہ كهڑكياں قبروں كى خاطر ركهى گئى ہيں ۔اور اس سے شبہ پڑتا ہے كہ مسجد قبرستان كا حصہ ہے لہٰذا ايسى مسجد ميں نماز درست نہيں ۔ چوتهى حديث ميں قبروں كو مسجد ميں بنانے پر لعنت كى گئى ہے۔ اوردوسرى حديث ميں قبرستان ميں نماز سے منع فرمايا ہے۔ پهر اس كے اطراف ميں قبروں كا ہونا يہ بهى اس بات كى تائيد ہے كہ يہ مسجد قبرستان كا حصہ ہے۔ اگر بالفرض مسجد پہلے ہو اور قبريں پيچهے بنى ہوں تو بهى كچھ خلل آگيا۔ كيونكہ تيسرى اور پانچويں حديث ميں گهروں كو قبريں بنانے سے روكا گياہے اور گهر ميں قبر كى يہى صورت ہوتى ہے كہ گهر كى حدود اور صحن وغيرہ ميں قبر بنا دى جائے، مسجد كے آس پاس قبريں اس قسم سے معلوم ہوتى ہيں ۔مزيد برآں صورتِ نقشہ سے