کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 73
میں عسکری قوت تو ہے مگر ا خلاقی طاقت نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ملک پر تن تنہا کبھی حملہ نہیں کرے گا۔ جب بھی کرے گا، دیگر ممالک کی ’کولیشن‘ بنا کر اور اقوامِ متحدہ کی چھتری استعمال کرتے ہوئے ایسا کرے گا۔ برطانیہ کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ملک امریکہ کا اندھا مقلد نہیں ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو امریکی کی خفگی کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ (۱۵) اسلام امن کا علمبردار ہے۔ امریکہ میں ہونے والی ہولناک دہشت گردی تو ایک طرف، اسلام معمولی درجہ کی دہشت گردی کو بھی جائز قرار نہیں دیتا۔ جنرل مشرف کے متعلق خیال یہی ہے کہ وہ سیکولر ذہن کے مالک ہیں ۔ مگر ۱۹/ ستمبر کو اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے فیصلے کی تائید میں میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ مدینہ کے واقعات بیان کئے اور قرآنِ مجید کی چند آیات کا حوالہ دے کر اپنے موقف کو ’حکمت‘ پر مبنی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وہ اپنی بات کے صحیح ہونے کے لئے قرآن و سنت سے حوالہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ مگر نہایت ادب سے یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف صاحب نے جس تناظر میں قرآن و سنت کے حوالہ جات پیش کئے، وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر ہے۔ وہ جتنابھی اصرار کریں کہ ان کا فیصلہ عین اسلام کے مطابق ہے، ان کے موقف کی تائید کرنا مشکل ہے۔ امت ِمسلمہ کے علماء و فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف حملے کی صورت میں کسی غیر مسلم ملک کی حمایت کرنا جائز نہیں !! مندرجہ بالا سطور میں جن تحفظات و خدشات کو بیان کیا گیا ہے ،انہیں جذباتی ردّعمل کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ آنے والے چند ہفتوں میں ان کی صداقت، وقعت اور اہمیت یا ان کے بے بنیاد ہونے کے متعلق علم ہوجائے گا۔یہ خدشات بھی قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر پیش کئے جارہے ہیں اورجنرل مشرف صاحب تو واشگاف اعلان کرچکے ہیں کہ وہ قومی مفاد کے منافی کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ ا بھی ان دونوں آرا کی افادیت کا سٹیٹ ہونا باقی ہے۔ اگر جنرل مشرف افغانستان پر ممکنہ امریکی حملے کو رکوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے فیصلے کوبلا تامل صائب کیا جائے گا، اگر اس کے برعکس حالات رخ اختیار کرتے ہیں اور افغان عوام ایک دفعہ پھر ہلاکت و بربادی سے دوچار ہوتے ہیں اورپاکستان پر امریکی آسیب بن کر مسلط ہوجاتے ہیں تو پھر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ جنرل یحییٰ خان نے بھی اپنے لحاظ سے ایک مدبرانہ اورحکیمانہ فیصلہ کیا تھا، مگر بعد کے حالات نے ان کے فیصلہ کو درست ثابت نہیں کیا، تاریخ نے انہیں اب تک معاف کیا ہے، نہ پاکستانی عوام نے۔ اللہ کرے کہ ارضِ پاک ایک دفعہ پھر اس طرح کی آزمائش سے دوچار نہ ہو۔ (آمین!) ٭ ٭