کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 71
ایسا کرسکتا ہے مگر اس کے لئے اسے زمینی حملہ کرنا پڑے گا۔محض فضائی حملوں سے طالبان کو کابل سے مستقل طور پربے دخل کرنا شاید ممکن نہ ہوگا۔ پاکستان امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کرکے زمینی حملہ میں اگر معاونت کرے گا، تو اس سے افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمہ کی راہ ہموار ہوگی اورپاکستان کی سا لمیت کے لئے نئے خطرات پیدا ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ (۱۲) امریکہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا بیان شائع ہوا ہے کہ پاکستان کا تعاون ثبوت کی فراہمی کے ساتھ مشروط ہے۔ مگر ادھر افغانستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کی تلاش کے لئے کمانڈو آپریشن بھی شروع ہوگیا ہے۔امریکی اخبار ’یوایس اے ٹو ڈے‘ نے ۲۸/ ستمبر کو رپورٹ شائع کی کہ یہ کمانڈوز ۱۳/ستمبر کو ہی پاکستان پہنچ گئے تھے، جہاں سے وہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں چلے گئے۔ امریکی حکام نے بھی کمانڈوایکشن کی تردید نہیں کی۔ ۱۳/ ستمبر کو اسلام آباد ایئر پورٹ دو گھنٹوں کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ حکومت نے وضاحت کی تھی کہ کسی ملک کی طرف سے ائرپورٹ پرحملہ کا خدشہ تھا اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے اسے بند کرنا ضروری تھا۔ ۳۰/ ستمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان کی سرزمین پر کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں ہے۔ کیااس طرح کی بھانت بھانت کی خبریں ’کنفیوژن‘ پیدا نہیں کررہیں ؟ (۱۳) امریکہ سے تعاون کے فیصلہ پر ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا جارہا ہے کہ یہ قدم نہایت عجلت میں اٹھایا گیا۔ فیصلہ پہلے کرلیا گیا اور مشاورت کا عمل بعد میں شروع کیا گیا۔ امریکی قیادت میں جنون خیزی، فوری اشتعال اور غم و غصہ کی شدید لہر کے کم ہونے کا انتظار کیا جاتا تو بہت مناسب تھا۔ ۱۶/ ستمبر کو جنرل مشرف نے علماء، مشائخ، صحافیوں اور سیاستدانوں سے مشاورتی ملاقات کی جبکہ ۱۵/ ستمبر کو امریکی صدر جارج بش اور جناب سیکرٹری کولن پاول نے پاکستان کا تعاون ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ شاید اسی بات کی شکایت اے آر ڈی کے سربراہ نے ۱۶/ ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا : ”ادھر انہیں دعوت نامے جاری کئے گئے اور ادھر امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ نے کہا کہ ان کے مطالبات تسلیم کرلئے گئے ہیں جبکہ پاکستانی قوم کو علم نہیں ہے کہ مطالبات کیا ہیں ۔ قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔جب سب کچھ طے کرچکے ہیں تو پھر مشورہ کس بات کا؟ “ (ایشیا: ۲۶/ ستمبر ) بعض افراد کے خیال میں جنرل مشرف نے آگرہ مذاکرات کے دوران جس طرح مضبوط اعصاب کا مظاہرہ اور قومی امنگوں کی جرأت مندانہ نمائندگی کی تھی، وہ امریکی دباؤ میں اس طرح کی آہنی قوتِ ارادی کا مظاہرہ نہیں کرسکے ہیں ۔قاضی حسین احمد نے اپنا ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ جب کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئی، تو مشرف صاحب بیٹھ گئے۔ سعودی عرب اور ایران کی طرف سے امریکی