کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 68
امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کررہا ہے۔ وہ اس کے اشاروں پر ہر وقت ناچنے کو تیار رہتا ہے۔ اس قرارداد پر اقوامِ متحدہ نے محض ٹھپہ لگایا ہے، ورنہ یہ درحقیقت امریکی عزائم کو قانون کی شکل دینے کی ناپاک جسارت ہے۔ اقوامِ متحدہ مکمل طور پر ساقط الاعتبار ہے۔ عالم اسلام خلیج کی جنگ میں اس کا کردار ملاحظہ کرچکا ہے۔ لاکھوں معصوم اور بے گناہ عراقی شہریوں کو امریکہ اور اس کے حواریوں نے سمارٹ بموں سے ہلاک کیا تھا تواس کے پس پشت بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادیں تھیں ۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کوہمیشہ رعونت اور تکبر سے نظر انداز کیا اور ان کی خلاف ورزی کی مگر اقوام متحدہ ایک بے بس لونڈی بنی رہی۔ نوائے وقت نے اس قرارداد پر بے حد ایمان افروز تبصرہ کیا ہے: ” اقوامِ متحدہ ایک عرصہ سے اپنا آزادانہ بین الاقوامی کردار ترک کرکے امریکہ کا ایک ایسا گماشتہ ادارہ بن چکا ہے جس کی ذمہ داری واحد ورلڈ پاور کے ہر جائز و ناجائز اقدام کی توثیق اور ظالمانہ عزائم کی تکمیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مظلوم اقوام کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عمل جامہ پہنچانے اور بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کے لئے اس بین الاقوامی ادارے نے آج تک اپنا کردار نہیں کیا۔ لیکن عراق کے بعد اب افغانستان پر امریکی حملے کے لئے ا س نے نہ صرف ایک گھنٹے میں قرار داد منظو رکر لی ہے بلکہ رکن ممالک کو نوے دن کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کئے گئے اقدامات کی تفصیل سے کمیٹی کو آگاہ کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔ محض امریکہ کے کہنے پر کسی فرد یا گروپ کو دہشت گرد قرار دے کر اس کی مالی اور لاجسٹک سپورٹ کے ذرائع کا قلع قمع کرنا کیسے جائز ہوگا۔“(یکم اکتوبر) (۹) اسلامی اخوت اور پان اسلام ازم ملت ِاسلامیہ کا شروع سے نصب العین رہا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان دیگر مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ تحریک ِخلافت اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ افغانستان کے مسلمانوں سے ہندوستان کے مسلمان ایک گہرے رشتہ اخوت میں اپنے آپ کو بندھے ہوئے محسوس کرتے ہیں ۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے افغانیوں کے ساتھ اسی اخوت کا اظہار ان لازوال الفاظ میں کیا تھا : اُخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے! مگر آج جبکہ امریکہ بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان کی سرزمین کو روندنے کوہے، ہماری طرف سے افغان بھائیوں کی امداد کی بجائے امریکہ کے دباؤمیں ان کے خلاف تعاون کرنابلاشبہ ابن الوقتی، خود غرضی اور اسلامی اخوت کے رشتوں کو توڑنے کے مترادف ہوگا۔ وطن عزیز کے مفادات، بقا اور تحفظ کو یقینی بنانا اور اسے اوّلین سمجھنا ہم سب کا فرض ہے، مگر ان اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک ہمسایہ مسلم ملک کے خلاف محاذ آرائی میں تعاون کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔ اس سے پاکستان اور افغانستان کے عوام کے