کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 63
سعودی عرب نے خلیجی جنگ کے دوران امریکیوں کے جو اڈے فراہم کئے تھے، امریکی بدستور ان پر قابض ہیں ۔ پرنس سلطان ایئر بیس اس وقت بھی امریکی افواج کے زیر تسلط ہے۔ دس سال گذرنے کے باوجود ان کے واپس جانے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ سعودی حکام نے بارہا ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ مگر امریکی ان کی ناپسندیدگی کے باوجود ان پر آج تک مسلط ہیں ۔ امریکی حد درجہ ناقابل اعتبار ہیں ۔ وہ کبھی اپنے اصل عزائم کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس دور کی بدترین استعماری ریاست امریکہ ہے۔ موجودہ ہنگامی حالات میں بھی امریکیوں کو اڈے فراہم کرنا پاکستان کی سا لمیت ، خود مختاری اور قومی وقار کو داؤ پر لگانے کے مترداف ہوگا۔ ارضِ پاک پر امریکیوں کے ناپاک قدم کا پڑنا ایک بہت بڑی قومی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ہمارے وزیرخارجہ توکہہ چکے ہیں : ”اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان میں غیر ملکی فوج کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ “
(نوائے وقت:۱۹ /ستمبر)
(۴) امریکی جس وسیع پیمانے پر جنگی تیاریاں کررہے ہیں ، ان کا اصل ٹارگٹ اسامہ بن لادن یا افغانستان نہیں ہے، ان کا اصل ہدف دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت ’پاکستان‘ ہے۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت امریکہ اور یہودی لابی کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ امریکہ پر حملہ کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ بار بار اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر مسلم بنیاد پرستوں کے ہاتھ کیمیکل یا نیوکلیئر ہتھیار آگئے تو وہ ناقابل بیان تباہی پھیلائیں گے۔ پاکستان کے ’اسلامی بم‘کی مخالفت بھی اس خدشہ کے پیش نظر کی جاتی رہی ہے کہ یہ مستقبل میں کہیں بنیاد پرستوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ عراق اور ایران کے درمیان جنگ کے دوران اسرائیل نے امریکی سرپرستی کے ساتھ عراق کا ایٹمی گھر تباہ و برباد کردیا تھا اور اب ان کی نگاہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف نے تو اپنی تقریر میں فرمایا کہ اگر وہ امریکہ سے تعاون نہ کرتے تو پاکستان کے سٹرٹیجک اثاثے اور ینوکلیئر سہولت خطرات کا شکار ہوجاتی۔ مگر پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اگر امریکی افواج پاکستان میں نازل ہوجاتی ہیں تو اس سے پاکستان کا نیو کلیئر پروگرام سخت خطرات کا شکار ہوجائے گا۔ قاضی حسین احمد نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ”امریکی افواج کے آنے سے ہمارے ایٹمی تنصیبات خطرے سے ددچار ہوجائیں گے۔“ (ایشیا: ۲۶ ستمبر)
نوائے وقت نے اپنے اداریے میں قومی موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے ان تحفظات کا اظہار کیا:
”ایٹمی پروگرام کی محافظ پاک فوج کی قیادت سے بہتر کون جانتا ہے کہ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنی زمینی اور فضائی حدود پرامریکی بالادستی تسلیم کرلی اور اس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان کے خلاف ہماری سرزمین سے جنگ چھیڑ دی تو اس کا کوئی آوارہ میزائل اوربھٹکتا ہوا طیارہ کہوٹہ اور دیگر ایٹمی تنصیبات کا رخ کرسکتا ہے اور امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ہم