کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 62
بیان کی ہیں ۔ اگر اب امریکہ پاکستان سے اس طرح کی لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تو پھر اس امر میں شک باقی نہیں رہنا چاہئے کہ امریکی افواج پاکستان کی سرزمین پر اُتریں گی۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اپنی کانفرنس میں کہا کہ ابھی تک امریکیوں نے پاکستان کو ’آپریشنل پلان‘(عملی منصوبہ) نہیں دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ’عملی منصوبہ‘ ابھی تک نہیں دیا گیا تو پھر امریکی وفد کے ا س بیان کا کیا مطلب سمجھا جائے جو اس نے ۲۸/ ستمبر کوامریکہ روانگی سے پہلے دیا۔ پاکستان نے لامحدود تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ کسی آپریشنل پلان کے بغیر لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی مصلحت و ضرورت کے بارے میں بھی وضاحت سامنے آجاتی تو شاید اس بارے میں عام لوگوں کے اندر جو تشویش پائی جاتی ہے، وہ کم ہوجاتی۔ لاجسٹک سپورٹ کے مطالبہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان پر زمینی حملہ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
(۳)تادمِ تحریر (یکم اکتوبر) حکومت ِپاکستان نے امریکہ کو فضائی اڈوں کی فراہمی کی تردید کی ہے۔ مگر اس کے باوجود پریس میں ایسی خبریں شائع ہورہی ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ امریکی مطالبات میں اڈوں کی فراہمی بھی شامل ہے۔ روزنامہ پاکستان نے ۲۸/ ستمبر کو نمایاں طور پر یہ خبر شائع کی: ”امریکہ نے پاکستان سے فضائیہ کے تین اور فوج کے دو اڈّے مانگ لئے“ ۔اخبار لکھتا ہے کہ انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملے کے لئے پاکستان سے سرگودھا، کامرہ، اور کوئٹہ کے ایئربیس حوالے کرنے کا مطالبہ کیاہے۔نیز پاک افغان سرحد کے قریب پارہ چنار اورمیراں شاہ کے علاقوں میں موجود دو فوجی ہوائی اڈّے بھی طلب کئے ہیں ۔“ اس طرح کی خبروں کی اشاعت نے پاکستان کے عام محب ِوطن شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اہل پاکستان کو سب سے بڑی تشویش ہوائی اڈوں کی فراہمی کے بارے میں ہے کیونکہ ایک دفعہ پاکستانی اڈوں کا قبضہ لینے کے بعد امریکی افواج آسانی سے واپس نہیں جائیں گی اورپاکستان استعماری امریکہ کی مستقل غلامی میں چلا جائے گا۔ یہاں خلیج جنگ کے حوالہ سے امریکہ کے کردار کو بیان کرنا مناسب ہوگا۔
جب صدام حسین نے ۶/اگست ۱۹۹۰ء کو کویت میں فوجیں اتاریں تو اس کے دو دن بعد ایک امریکی وفد اس وقت کے سیکرٹری دفاع ڈک چینی کی سربراہی میں سعودی عرب پہنچا۔ اس وفد نے عراق کے کویت پر قبضہ کے بعد علاقہ میں بدلی ہوئی صورتحال پر سعودی فرماں روا شاہ فہد کو بریف کیا۔ جنرل نارمن نے اپنی سوانح عمری میں شاہ فہد سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈک چینی نے شاہ فہد کو بریف کرتے ہوئے کہا : ”صدر بش نے مجھے آپ تک یہ پیغام پہنچانے کی ہدایت کی ہے ، ہم سعودی عرب کے دفاع کے لئے افواج بھیجنے کو تیار ہیں ۔ اگر آپ کہیں گے، تو ہم آئیں گے، ہم مستقل طور پر کوئی اڈے نہیں مانگیں گے، اور جب آپ ہمیں کہیں گے تو ہم چلے جائیں گے۔“ (صفحہ ۳۵۴) لیکن
[1] ایک امریکن رسالے میں ان اسباب کو جن کی وجہ سے وہاں بداخلاقی کی غیر معمولی اشاعت ہورہی ہے، اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیا پر چھا گئی ہے اوریہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں : فحش لٹریچرجو جنگ کے بعد سے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرتِ اشاعت میں بڑھتا چلا جارہا ہے۔ متحرک تصاویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں بلکہ عملی سبق دیتی ہیں ۔ عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار، جو ان کے لباس اور بسااوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روز افزوں استعمال اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید و امتیاز سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے ہاں بڑھتی چلی جارہی ہیں اوران کا نتیجہ مسیحی تہذیب اور معاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی ہے۔ اگر ان کو نہ روکا گیا تو ہماری تاریخ بھی روم اور ان جیسی دوسری قوموں کے مماثل ہوگی جن کو یہی نفس پرستی، اور شہوانیت ان کی شراب اور عورتوں اور ناچ رنگ سمیت فنا کے گھاٹ اتار چکی ہے‘‘۔ (’پردہ‘ از مودودی رحمۃ اللہ علیہ ، صفحہ ۱۰۲،۱۰۳)