کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 61
کردی ہے“ (نوائے وقت)۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے بار بار یہ وضاحت پیش کی جارہی ہے کہ”ہم افغانستان کے خلاف کسی کاروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔“ یہ دونوں اعلانات بادئ النظر میں باہمی تضادات کے حامل ہیں ۔ معلومات کے تبادلہ، فضا کے استعمال کی اجازت اورپھر لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی بالواسطہ طور پر امریکہ کی طرف سے افغانستان کے خلاف ممکنہ کارروائی میں شمولیت ہی کی تو غمازی کرتی ہیں ۔ اس وقت امریکہ کو سب سے زیادہ ضرورت مستند معلومات کی ہے۔ وہ اپنی تمام تر اعلیٰ انٹیلی جنس کے نیٹ ورک اور سٹیلائٹ کے نظام کے باوجود اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسامہ بن لادن جہاں بھی ہے، اکیلا نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان کے علاوہ سینکڑوں مجاہدین اور محافظین بھی ہوں گے، معلومات کی فراہمی کے بعد امریکہ کی طرف سے وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ان سب بے گناہوں کے ہلاکت کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ کیا پاکستانی قوم کا اجتماعی ضمیر اس طرح کی وحشیانہ ہلاکتوں میں اعانت کو کبھی قبول کر پائے گا؟اور پھر امریکی عزائم محض اسامہ بن لادن تک محدودنہیں ہیں ، جس طویل جنگ کا وہ اعلان کررہے ہیں ، اس میں طالبان حکومت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکہ افغانستان کے فاقہ زدہ بے گناہ عوام کی وسیع پیمانے پر قتل و غارت کے بغیر طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرسکتا ہے؟ کیا کابل شہر پر گرنے والے میزائل صرف طالبان کے گھروں کو ہی تباہ کریں گے؟ آخر ہم اس وحشیانہ کارروائی میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا کیونکر دفاع کرپائیں گے؟ کیا افغان عوام ہماری اس اعانت کو کبھی فراموش کر پائیں گے؟ کیا پاکستانی عوام اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ اس بہیمانہ سلوک کی اجازت دیں گے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات تشنہ جواب ہیں۔ (۲) مذکورہ تینوں امریکی مطالبات میں سے سب سے زیادہ ابہام ’لاجسٹک سپورٹ‘ کے بارے میں پایا جاتاہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک ’لاجسٹک سپورٹ‘ کی اصطلاح فضائی یا زمینی اڈوں کے لئے محض ایک ’کور‘ (Cover) ہے۔ فضائی یازمینی اڈوں کی فراہمی کے بغیر لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی بے معنی بلکہ ناقابل تصور ہے۔ لاجسٹک سپورٹ میں اہم ترین بات فوجوں کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ خلیج کی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ امریکیوں نے جس لاجسٹک سپورٹ کا معاہدہ کیا تھا، اس میں ٹرانسپورٹیشن، پانی کے اخراجات، ایندھن، فوجیوں کی رہائش اورلاجنگ کا بندوبست، افواج کی نقل و حرکت پراخراجات وغیرہ شامل تھے۔ خلیجی جنگ میں امریکی افواج کے سپریم کمانڈر جنرل نارمن شواز کوف نے اپنی سوانح عمری"It does not take a hero" میں اس کے بارے میں تمام تفصیلات