کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 59
نہ کرے، افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ سعودی عرب کے بارے میں چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ انہوں نے امریکہ کو فضائی اڈوں کی سہولت دینے کی حامی بھرلی ہے مگر یکم اکتوبر کو سعودی وزیر دفاع پرنس سلطان بن عبدالعزیز کی وضاحت شائع ہوئی کہ سعودی عرب کسی مسلمان ملک پر حملہ کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ البتہ امریکی دباؤ میں آکر سعودی عرب نے افغانستان سے اپنے سفارتی روابط منقطع کرلئے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات نے بھی افغانستان سے سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستان اس وقت واحد اسلامی ریاست ہے جس کے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات اب تک قائم ہیں ۔ عراق نے امریکی عزائم کی مذمت کی ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے امریکی صدر جارج بش سے ملاقات کے دوران زور دیا ہے کہ جہاد اور دہشت گردی کے درمیان فرق کو قائم رکھا جائے اوریہ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ جیسی اصطلاحات کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔ عالم اسلام کوچاہئے کہ وہ بحران کی اس نازک گھڑی میں افغانستان سے بھرپور اخلاقی تعاون کریں ۔ آج اگر امریکہ جنگ کے ذریعہ افغانستان کو تباہی کا شکار کرتا ہے تو کل کسی بھی اسلامی ملک کی باری آسکتی ہے۔ کیونکہ امریکہ کے نزدیک کم از کم پانچ دیگر مسلم ممالک بھی دہشت گرد ممالک کے زمرے میں آتے ہیں ۔ امت ِمسلمہ کو اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر آج تمام اسلامی ممالک ٹھوک بجا کر امریکہ پر یہ واضح کردیں کہ وہ افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت کی ہرگز تائید نہیں کرتے تو امریکہ کو اس ریاستی غنڈہ گردی کی جرأت نہیں ہوگی۔ امریکہ اس وقت پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ اسے مسلم ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسلامی ممالک کو اس غلط پراپیگنڈہ کا موٴثر جواب دینا چاہئے۔ اسلامی ممالک امریکہ کی مخالفت کرکے پاکستان کے لئے بھی یہ کام آسان کردیں گے۔ کیونکہ اس صورت میں پاکستان امریکہ سے تعاون کرنے سے یہ کہہ کر انکار کرسکتا ہے کہ وہ عالم اسلام کونہیں چھوڑ سکتا۔ تحفظات و خدشات ۱۹/ستمبر ۲۰۰۱ء کوجنرل پرویز مشرف کی جانب سے اپنے فیصلے کی مفصل وضاحت پیش کرنے اور ۲۷/ستمبر کو سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کو عظیم الشان ’کامیابی‘ قرار دینے کے باوجود پاکستانی قوم ذہنی تحفظات اور خدشات کا بدستور شکار ہے۔ امریکہ سے تعاون کے معاملے میں حکومت کے فیصلوں کے متعلق قومی اتفاقِ رائے کے دعوے خوش اعتقادی کا مظہر معلوم ہوتے ہیں ۔حکومتی فیصلے کی تائید اور مخالفت میں رائے عامہ ابھی تک منقسم ہے۔جہاں حکومت فیصلے کی تائید میں ہر طبقہ فکر سے بیانات دیئے گئے ہیں ، وہاں اس کی مخالفت میں سامنے آنے والی آرا بھی محض جہادی تنظیموں تک محدود نہیں ہیں ۔ ان میں بھی اہل الرائے، صحافی، دانشور، سیاستدان، طلباء، خواتین اور دیگر طبقات کے نمائندے شامل ہیں ۔ ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ /مقیاسِ حرارت تو نہیں کہ جس سے ا س معاملے میں قومی موڈ کا ٹھیک ٹھیک درجہ حرارت نوٹ کرسکیں یا
[1] جج لنڈ لکھتا ہے: ’’ہائی سکول کی کم عمر والی ۴۹۵ لڑکیاں جنہوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ ان کو لڑکوں سے صنفی تعلقات کا تجربہ ہوچکا ہے ان میں سے ۱۲۵/ایسی تھیں جنہیں حمل ٹھہر گیا تھا۔ باقیوں میں سے بعض تو اتفاقاً بچ گئیں لیکن اکثر کو منع حمل کی مؤثر تدابیر کا کافی علم تھا۔ یہ واقفیت ان میں اتنی عام ہوچکی ہے کہ لوگوں کو ان کا صحیح اندازہ نہیں ہے‘‘۔ (پردہ از مودودی رحمۃ اللہ علیہ : ص ۱۰۹،۱۱۰)