کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 58
اسامہ بن لادن اس میں ملوث ہے۔اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا جائے تو طالبان کا موقف حق پر مبنی ہے۔ محض متعصب اور منتقم مزاج امریکی قیادت کے کہنے پر آخر اسامہ بن لادن کو ان کے حوالہ کیوں کیا جائے جبکہ ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ طالبان اسامہ بن لادن کو اپنا محسن، محبوب مجاہد اور عالم اسلام کا ہیرو سمجھتے ہیں ۔ اسامہ بن لادن نے غریب افغانیوں ، ان کے یتیم بچوں اور بیواؤں کی مالی معاونت میں کروڑوں ڈالر خرچ کئے ہیں ۔ ہزاروں طالبان اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں ۔ بعض ذرائع کے مطابق اگرملا عمر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کردیں توہزاروں طالبان اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیں گے۔
اسامہ بن لادن ایک کرشماتی شخصیت ہے، اس نے نئی افغان نسل میں جوشِ جہا دکو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسامہ بن لادن محض کسی ایک شخص کا نام نہیں ہے، وہ اب ایک تحریک اور نظریہ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ امریکہ نے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کے لئے اسامہ بن لادن کا ہوا کھڑا کیا ہوا ہے۔ جس طریقے سے وہ اسامہ بن لادن کے متعلق پراپیگنڈہ کررہے ہیں ، اس سے تو لگتا ہے کہ وہ ایک عام انسان نہیں بلکہ کوئی سپر نیچرل چیز ہے۔ ایک سپرپاور طاقت کی جانب سے ایک فرد سے مرعوبیت اور دہشت زدگی ایک ایسا شرمناک امر ہے جس کی انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اسامہ بن لادن نے اپنے بیان میں کہا کہ” میرا امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جنہوں نے یہ کام کیا ہے انہوں نے ایساذاتی مفاد کے لئے کیا ہے۔ میں ملا عمر کا پیروکار ہوں ۔انہوں نے مجھ پر باہر کی دنیا سے رابطہ کرنے کی پابندی لگا رکھی ہے۔ ملا عمر نے مجھے اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی۔“ (جنگ:۱۷/ ستمبر)
امریکہ اسامہ بن لادن کی جو وحشت ناک تصویر کشی کررہا ہے اور اسے ایک مافوق الفطرت دہشت گرد اور وحشی انسان کی حیثیت سے پیش کررہا ہے، اگر اس کا یہ پراپیگنڈہ درست ہے تو اسامہ بن لادن بڑے فخر سے امریکہ میں دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرتا اور اپنے آپ کو امریکہ کے حوالہ کردیتا۔ اگر امریکہ کو تباہ کرنا ہی اسامہ بن لادن کا مقصود ہے تو پھر وہ بار بار وضاحتی تردید کیوں جاری کررہا ہے؟
عالم اسلام کہاں کھڑا ہے؟
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، عالم اسلام نے متفقہ طور پر اس کے خاتمہ کے متعلق سکیورٹی کونسل کی قرارداد کی تائید کی ہے۔ مگر دہشت گردی کا خاتمہ ایک الگ مسئلہ ہے اور افغانستان پر امریکی حملہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔ امریکہ بھرپور سفارتی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ عالم اسلام کو اپنا ہم نوا بنائے مگر اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ ایران نے صاف جواب دے دیا ہے کہ وہ بے گناہ افغان عوام کو ہلاک کرنے کے منصوبہ میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ مصر کے حسنی مبارک بار بار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ جلد بازی
[1] سید قطب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’میرا چشم دید امریکہ ‘‘میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’واشنگٹن کے ’ولسن ادارئہ معلّمین ‘ میں غیر ملکیوں کو انگلش سکھانے والے شعبہ کی ایک خاتون استاد نے لاطینی امریکہ کے طلباء کو امریکی روایات کے بارے میں ایک لیکچر دیا۔جس کے اختتام پر ’گوئٹے مالا‘ کے ایک طالب علم نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ چودہ سال کی لڑکیاں اور پندرہ سال کے لڑکے مکمل جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں یہ خبر بڑی قبل ازوقت ہے۔اس پر خاتون استاد نے انتہائی پرجوش لہجے میں جواب دیا: ’’ہماری زندگیاں انتہائی مختصر ہیں اورہم چودہ سال سے زیادہ وقت ضائع نہیں کرسکتے۔‘‘