کتاب: محدث شمارہ 253 - صفحہ 57
کے ساتھ، نام یوم یکجہتی اور جہت ہے کہ متعین نہیں ہوپارہی!! “ جناب اطہر عباس نے یوم یکجہتی کی ’کامیابی‘ کے متعلق دلچسپ اور اپنے مخصوص لطیف طنزیہ پیرائے میں یوں تبصرہ کیا: ”جگہ جگہ قوتِ ایمانی اور حب الوطنی کے جذباتی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ابھی ابھی مجھے سرگودھا کے ایک شہری عثمان صاحب کا فون آیا ہے کہ وہاں پانچ سکولوں میں چھٹی کرا کے یوم یکجہتی کی شان دوبالا کی گئی۔ لاہور کی تمام ویگنیں یوم یکجہتی منانے میں مصروف تھیں ۔ ا س لئے رکشوں ، ٹیکسیوں ، چھوٹی ٹرانسپورٹ نے سڑکوں پر خوار ہونے والی سواریوں سے مکمل اظہارِ یکجہتی کیا اور منہ مانگے کرائے لئے۔ بلدیہ کے سکولوں کے طلبہ جوق در جوق اس قومی مظاہرے میں شریک ہوئے۔ سرکاری اداروں خصوصی کارپوریشن، واسا اور ایل ڈی اے وغیرہ کے ملازموں نے فرض سمجھ کر اپنے اداروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔“ (کنکریاں : نوائے وقت، ۲۸ ستمبر) طالبان کا موقف طالبان نے موجودہ بحران میں مداہنت کی بجائے مدافعت، ذلت کی بجائے آبرو اور بے اصولی کی بجائے اصول پرستی، دنیا داری کی بجائے دین کا انتخاب کیا ہے۔ معاشی زبوں حالی اور دگرگوں حالات اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود ان کی طرف سے عزیمت کی راہ پر جمے رہنا تعجب انگیز اور ایمان افروز ہے۔امریکہ کے ممکنہ حملے اور مسلسل توہین آمیز دھمکیوں اور پاکستان کی طرف سے مسلسل سفارتی کاوشوں کے باوجود انہوں نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ۱۷/ ستمبر کو پاکستان کی طرف سے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل محمود کی قیادت میں ایک وفد افغانستان گیا۔ وفد نے ملا عمر اور دیگر طالبان راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں ۔وفد نے انہیں امریکہ سے تعاون نہ کرنے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا مگر طالبان مرعوب نہ ہوئے اور وفد ناکام لوٹا۔ ۲۰/ ستمبر کو ایک ہزار افغان علماء کی کونسل نے فیصلہ دیا کہ ”اسامہ بن لادن سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی اور ملک چلے جائیں ۔“ پاکستان میں متعین افغان سفیر عبدالسلام ضعیف نے وضاحت کی کہ افغان کونسل کا یہ فیصلہ محض ’مشورہ‘ ہے،فتویٰ یا حکم کا درجہ نہیں رکھتا۔ ۳۰/ ستمبر کو ۱۶ علماء کا ایک وفد جن میں مولانا تقی عثمانی، مولانا فضل الرحیم اور مفتی جمیل بھی شامل تھے، ایک دفعہ پھر افغانستان گیا۔وفد کے ساتھ جنرل محمود صاحب بھی تھے۔ وفد طالبان کو قائل تو کیاکرتا، الٹا قائل ہوکر واپس آگیا۔ یکم اکتوبر کو ملا عمر کا بیان شائع ہوا کہ”اسامہ بن لادن تو ایک محبوب مجاہد ہے ہم تو کسی عام شہری کو بھی ثبوت کے بغیر امریکہ کے حوالے نہ کریں گے۔‘‘ طالبان نے بار بار وضاحت کی ہے کہ امریکہ میں دہشت گردی کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے اور نہ ہی